غزہ میں جنگ بندی شروع ہوئے دو ماہ ہو چکے ہیں۔ فلسطینی اب بھی اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں، لیکن مسلسل بمباری رک گئی ہے، کم از کم ابھی کے لیے، غزہ پٹی میں داخل ہونے والی اشد ضروری امداد کو دو ہفتے قبل روک دیا گیا تھا۔
گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں جو کچھ داخل ہوا وہ غزہ کے تباہ حال صحت کے نظام کو بمشکل ہی بحال کر سکا۔ بہت سے ہسپتال اور کلینک تباہ ہو چکے ہیں، خاص طور پر شمال میں، کہ انسانی ہمدردی کی تنظیموں کو لاکھوں زندہ بچ جانے والوں کو بنیادی نگہداشت فراہم کرنے کے لیے خیمے لگانے پڑے ہیں۔ آنے والی طبی سپلائی ابھی سے ختم ہو رہی ہے۔
اس مسلسل اذیت کے درمیان، غزہ میں صحت کا نظام بحال ہونا تو دور کی بات، یہ عام شہریوں کو درپیش کئی صحت کے بحرانوں سے نمٹنے کے قابل بھی نہیں ہے۔ ان میں سے سب سے بدترین ان معذور افراد کی چونکا دینے والی تعداد ہے جو اسرائیل کے 15 ماہ تک اندھا دھند دھماکہ خیز ہتھیاروں کے استعمال کے بعد بچے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء سے ستمبر 2024ء تک غزہ میں 22,500 افراد زندگی بدل دینے والے زخموں کا شکار ہوئے، جن میں اعضاء کے شدید زخم، اعضاء کا کٹنا، ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ، دماغی چوٹیں اور شدید جلنا شامل ہیں۔
نسل کش جنگ کے عروج پر امدادی ایجنسیاں اور طبی تنظیمیں رپورٹ کر رہی تھیں کہ غزہ میں روزانہ 10 سے زیادہ بچے ایک یا دو اعضاء سے محروم ہو رہے ہیں۔ بہت سے لوگ بغیر بے ہوشی کے آپریشن کروا رہے تھے، اور ان میں سے بہت سے اعضاء کو بچایا جا سکتا تھا اگر صحت کا نظام مکمل طور پر تباہ نہ ہو جاتا۔ دسمبر میں اقوام متحدہ نے کہا کہ غزہ میں ’’دنیا میں فی کس بچوں کے اعضاء کٹنے کی شرح سب سے زیادہ ہے‘‘۔
جولائی 2024ء میں الاقصی شہداء ہسپتال کے فیلڈ دورے کے دوران میں نے خود دیکھا کہ غزہ کے آخری فعال ہسپتالوں میں سے یہ ایک ہسپتال کس طرح دھماکہ خیز ہتھیاروں سے زخمی ہونے والوں کی مدد کے لیے جدوجہد کر رہا تھا۔ جب میں ہسپتال پہنچی تو کئی بمباریوں سے زخمی ہونے والے بہت سے لوگ موجود تھے۔
عملے کی شدید قلت کے باعث میں میں نے فوراً مدد دینا شروع کی۔ میں نے جس پہلے مریض کا علاج کیا وہ چار سالہ طالا نامی ایک زخمی لڑکی تھی، بمباری کی وجہ سے اس کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ شدت سے رو رہی تھی اور چیخ رہی تھی۔ اس کی ماں، جو خود بھی شدید زخمی تھی، اسے حوصلہ دینے کے لیے نہیں آ سکی۔ میں اس چھوٹی بچی کی پٹی تبدیل کرنے اور درد کھینچنے والی دوا دینے کے سوا زیادہ کچھ نہیں کر سکی۔
پھر میں نے عبداللہ نامی ایک نوجوان کو دیکھا جو شدید زخمی اور بے ہوش تھا، ہسپتال پہنچنے پر اس کی باقی ٹانگ بھی کاٹ دی گئی۔ اس کے والد نے مجھے بتایا کہ عبداللہ کی دادی اور اس کا بھائی یا بہن بھی مارے گئے تھے۔
میں دسمبر 2024ء میں ہسپتال واپس آئی جہاں میری ملاقات دو چھوٹی بچیوں، 3 سالہ حنان اور 1 سال 8 ماہ کی مِسک سے ہوئی، جنہوں نے چند ماہ قبل اسرائیلی حملے میں اپنے اعضاء اور اپنی ماں کو کھو دیا تھا۔ حنان کے دونوں پاؤں کاٹ دیے گئے تھے، جبکہ اس کی بہن مِسک کا ایک پاؤں ضائع ہو گیا تھا۔ ان کی خالہ جس سے میں نے بات کی، اس نے ان کی دیکھ بھال کے حوالے سے مشکلات کا بتایا۔ مِسک نے ابھی چلنا سیکھا ہی تھا کہ بمباری سے اس کا پاؤں ضائع ہو گیا۔ حنان اتنی بڑی تھی کہ وہ اپنی عمر کے دوسرے بچوں کے پاؤں کو دیکھ اور سمجھ سکتی تھی، اور پوچھتی تھی کہ اس کے پاؤں کیوں غائب ہیں۔
یہ ان ہزاروں بچوں کی کہانیوں میں سے چند ایک ہیں جن کا بچپن اسرائیلی بموں نے چھین لیا ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ دوڑنے اور کھیلنے سے قاصر ہیں، ایک ایسی جگہ پر شدید صدمے کا شکار ہیں جو انہیں بنیادی نگہداشت بھی فراہم نہیں کر سکتی۔
غزہ اس نسل کش جنگ سے پہلے ہی معذور افراد کی ایک بڑی تعداد کے لیے جدوجہد کر رہا تھا جو پچھلی اسرائیلی جنگوں اور پرامن مظاہروں پر حملوں کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن کچھ مراکز اور تنظیمیں ان کی مدد کر رہی تھیں۔ حمد ہسپتال برائے بحالی و مصنوعی اعضاء، معذور افراد کو مصنوعی اعضاء فراہم کرنے کے قابل تھا۔ مختلف اقدامات نے صدمے اور مایوسی پر قابو پانے کے لیے نفسیاتی سماجی مدد اور شفایابی کے پروگرام فراہم کیے۔ لیکن یہ سب اب ختم ہو چکے ہیں۔ حمد ہسپتال نسل کش جنگ کے پہلے چند ہفتوں میں ہی تباہ ہو گیا تھا۔
تباہ شدہ ہسپتال اور عارضی کلینک دائمی بیماریوں کے لیے بمشکل ہی کوئی نگہداشت فراہم کرنے کے قابل ہیں، معذور افراد کے لیے تو دور کی بات ہے۔ رفح کی سرحدی گزرگاہ ایک بار پھر بند ہو گئی ہے اور کوئی بھی زخمی علاج کے لیے سفر نہیں کر سکتا۔ مصنوعی اعضاء اور بیساکھیوں اور وہیل چیئرز جیسے ہزاروں امدادی آلات کی فوری ضرورت ہے، لیکن انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
غزہ کے صحت کے شعبے کو جس پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے، اسے دوبارہ تعمیر ہونے میں کئی سال لگیں گے، اور یہ تب ہے جب اسرائیل اجتماعی سزا کے طور پر امداد کو روکنا بند کر دے۔ اس دوران معذور افراد لازمی طور پر نہ صرف نگہداشت اور بحالی کی کمی کا شکار ہوں گے بلکہ گہرے نفسیاتی صدمے کا بھی شکار ہوں گے جو غیر علاج شدہ رہے گا۔ یہ غزہ کی خاموش وبا ہو گی۔