استدلال کے منہاج میں سُقم کن غیر معقول نتائج تک لے جا سکتا ہے، ذیل میں فقہ سے اِس کی ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ یہ حدیث سے غلط استدلال کا ایک نمونہ ہے۔ ایسے بیسیوں مسائل ہماری فقہ کو لاحق ہیں۔ اِس سے یہ بھی واضح ہوگا ہے کہ
- فکر غامدی میں استدلال کی بنیادوں کی تنقیح کیوں اہم ہے۔
- حدیث کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف کیوں درست ہے۔
- نظمِ کلام سے فہمِ کلام کے حقیقی مفہوم تک رسائی کا منہاج کیونکر ایک درست طرزِ فہم ہے۔
- کلام اپنے لسانی اور عقلی مضمرات کے ساتھ صادر ہوتا ہے۔
- کلام کا تاریخی پس منظر بھی نظمِ کلام میں شامل ہوتا ہے۔
متن فہمی کے یہ مسلّمہ اصول اگر قرآن اور حدیث کی تفہیم میں نہ برتے جائیں تو نتائج کس قدر غلط پیدا کیے جا سکتے ہیں، یہ درج ذیل مثال سے واضح ہوگا۔
غامدی صاحب کا موقف ہے کہ احادیث دین کا مستقل ماخذ نہیں ہیں۔ دین کے مستقل ماخذ قرآن اور سنت متواترہ ہیں، جو اجماع و تواتر کے قطعی ذرائع سے ملے ہیں۔ احادیث اخبارِ احاد کی صورت میں منتقل ہوئی ہیں، اِس لیے یہ ایک ظنی ذریعہءِ علم ہیں۔ یہ اپنے سیاق و سباق کے ساتھ بالعموم بیان نہیں ہوتیں، اِس لیے اِنھیں علم اور عقل کے مسلّمات کی روشنی میں رکھ کر سمجھا جائے گا۔ احادیث میں اصل دین کی تبیین و تشریح، اُس کے اصولوں کا اطلاق، رسول اللہ ﷺ کا اسوہءِ حسنہ، آپ کی سیرت و سوانح کا بیان ہوتا ہے۔ اِن میں کوئی مستقل حکم بیان نہیں ہوتا۔ اِن سے قرآن کے کسی حکم میں نسخ اور تبدیلی نہیں ہوتی۔
اِس کے برعکس، فقہا احادیث کو ایک ظنی ماخذ تسلیم کرنے کے باوجود دین کے مستقل احکام اخذ کرنے کا ایک ذریعہ مانتے ہیں اور اُن سے قرآن کے حکم میں نسخ و تبدیلی کے بھی قائل ہیں۔ متن میں لسانی اور عقلی تقییدات عائد کرنے میں بھی اُن کے ہاں سقم پائے جاتے ہیں۔
اب محولہ مسئلے کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
ایک روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا بارہ ہزار کا لشکر مغلوب نہیں ہو سکتا۔
پوری روایت یہ ہے:
عن ابن عباس، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال:" «خیر الصحابۃ أربعۃ، وخیر السرایا أربعمائۃ، وخیر الجیوش أربعۃ آلاف، ولن یغلب اثنا عشر ألفا من قلۃ» قال أبو داود : والصحیح أنہ مرسل۔ (ابو داؤد، 2611)
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہتر ساتھی وہ ہیں جن کی تعداد چار ہو، اور چھوٹی فوج میں بہتر فوج وہ ہے جس کی تعداد چار سو ہو، اور بڑی فوجوں میں بہتر وہ فوج ہے جس کی تعداد چار ہزار ہو، اور بارہ ہزار کی فوج قلّت تعداد کی وجہ سے ہرگز مغلوب نہیں ہو گی۔“
یہ ایک مرسل حدیث ہے۔ اِس کی سند سے قطعِ نظر، روایت کو متن فہمی کے درج بالا اصولوں کی روشنی میں سمجھا جائے تو اِس کا درست مفہوم متعین کرنا دشوار نہیں ہے۔ اِسے اِس کے تاریخی پس منظر میں دیکھیے۔
عرب میں راستے دشوار اور غیر محفوظ تھے، اِس صورتِ حال میں یہی مشورہ دیا جانا چاہیے تھا کہ کم از کم دو چار لوگ مل کر سفر پر نکلیں۔ دوسرے یہ کہ عرب کے متفرق قبائل کے مقابلے میں سب سے بڑی جنگی قوت رسول اللہ ﷺ کے پاس جمع ہو گئی تھی، جو مختلف قبائل پر مشتمل تھی۔ ہمسایہ قبائل سے چھوٹی جھڑپوں اور عرب کے بڑے قبائل سے باقاعدہ جنگوں کا سلسلہ جاری تھا۔ اِس تناظر میں رسول اللہ ﷺ نے کسی موقع پر اپنے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی یا اُن کی تنبیہ کے لیے فرمایا کہ عرب کے قبیلوں کی بکھری ہوئی طاقت کے مقابل چھوٹی چھڑپوں کے لیے چار سو اور بڑی جنگ کے لیے چار ہزار اور پھر بارہ ہزار ایک بڑا لشکر ہے، جو اِن متفرق قبائل سے مغلوب نہیں ہو سکتا، یا اسے مغلوب نہیں ہونا چاہیے۔
روایت میں وارد اِس بیان سے فقہا نے اپنے اصول فقہ کے مطابق ایک مستقل حکم برآمد کر لیا کہ اگر مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو تو وہ جنگ سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے خواہ اُن کا دشمن افرادی قوت اور جنگی ہتھیاروں میں اُن سے کتنا ہی فائق کیوں نہ ہو۔ البتہ اُن کی تعداد بارہ ہزار سے کم ہو اور اُن کا دشمن برتر ہتھیار رکھتا ہو تو وہ جنگ سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں، چاہے اُن کی افرادی قوت دشمن سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگر یہ روایت نہ ہوتی یا فقہا اِس سے ایسے استدلال نہ کرتے جیسے اُنھوں نے کیا تو یقینا ً جو معقولیت اُنھوں نے بارہ ہزار سے کم لشکر کے معاملے میں دکھائی، وہ بارہ ہزار کے لشکر کے لیے بھی دکھا پاتے۔
فقہا نے یہ نتیجہ اِس علم کے باوجود نکالا کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں بھی مسلمانوں کا بارہ ہزار کا لشکر غزوہءِ حنین کے موقع پر ایک بار شکست سے دوچار ہو گیا تھا۔ البتہ، اُنھوں نے دوبارہ ہمت مجمتع کر کے شکست کو فتح میں تبدیل کر لیا تھا۔ چنانچہ واقعہ بھی سامنے تھا، جس کے مطابق بارہ ہزار کا لشکر بھی ہزیمت کا شکار ہو سکتا ہے۔ مگر حدیث میں وارد الفاظ واقعہ پر غالب آ گئے اور ایک غلط استدلال قائم کر لیا گیا۔
فقہا اِس روایت میں صرف ایک عقلی قید کا اضافہ کرتے ہیں کہ غلبے کی یہ بشارت اِس سے مشروط ہے کہ مسلمانوں کا کلمہ متحد ہو۔ یعنی اُن میں باہم کوئی اختلاف نہ ہو۔ یہ اضافہ بھی وہ اِس لیے کرتے ہیں کہ اِسی روایت کے بعض دیگر متون میں، جن کی سند بھی قابل احتجاج نہیں، یہ بات مذکور ہوئی ہے۔ اگر یہ عقلی قید یہاں لگائی جا سکتی ہے تو دیگر عقلی قرائن سے مزید قیدیں بھی اِس میں مضمر سمجھی جا سکتی تھیں، جن کا ذکر پیشتر کیا گیا۔
فقہا کے استدلال کے منہاج میں یہ اِسقام ہیں۔ اس میں پہلے ایک روایت کو دین میں مستقل حکم کا ایک ماخذ باور کیا جاتا ہے، اور پھر اُسے اُس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر ایک مستقل حکم برآمد کر لیا جاتا ہے اور پھر قرآن کے حکم میں نسخ کر دیا جاتا ہے۔ وہ یوں کہ قرآن مجید دشمنوں سے افرادی طاقت کے تناسب کی رعایت رکھتے ہوئے مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ دشمنوں کی تعداد اُن سے دس گنا زیادہ بھی ہو تو وہ اُن سے جنگ کریں۔ مسلمان اگر استقامت دکھائیں گے تو غالب رہیں گے۔ پھر اِس تناسب کو تبدیل کر کے ایک اور دو کی نسبت مقرر کرتا ہے کہ اُن میں کچھ کم زوری در آئی ہے۔ (انفال، 66)۔ مگر فقہا تناسب کی اِس رعایت کو اُس صورت میں کالعدم قرار دیتے ہیں جب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو۔
اِس روایت کی بنا پر قرآن کے حکم میں یہ نسخ فقہا کے اپنے اصول فقہ کی رو سے بھی درست نہیں۔ احناف قرآن مجید میں نسخ کے لیے روایت کا کم از کم مشہور ہونا لازم قرار دیتے ہیں۔ مگر یہاں ایک مرسل روایت سے قرآن کے حکم میں نسخ کر دیا گیا ہے۔
قانون کے ایک پروفیسر صاحب فقہا کے اِس نتیجہ کی بنیاد پر آج کے مسلمانوں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ جنگی ٹیکنالوجی کے فرق کی وجہ سے وہ دشمنوں کے مقابلے سے صرف اُسی صورت میں دست بردار ہو سکتے ہیں، جب اُن کی تعداد 'بارہ ہزار' سے کم ہو، لیکن اُن کی تعداد بارہ ہزار یا اِس سے زائد ہو تو پھر اُنھیں ہر صورت مقابلہ کرنا ہوگا، کیونکہ بارہ ہزار کا لشکر مغلوب نہیں ہو سکتا۔
پروفیسر صاحب امام ابو بکر جصاص سے نقل کرتے ہیں:
"و الذي روي عن النبي ﷺ فی اثنی عشر ألفاً، فھو أصل فی ھذا الباب؛ و إن کثر عدد المشرکین، فغیر جائز لھم أن یفروا منھم، و إن کانوا أضعافھم، لقولہ ﷺ (إذا اجتمعت کلمتھم)، وقد أوجب علیھم بذلک جمع کلمتھم۔
(اور بارہ ہزار کے متعلق جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا گیا تو وہ اس باب میں اصل کی حیثیت رکھتا ہے، خواہ مشرکین کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ ان کے مقابلے سے بھاگ جائیں چاہے وہ ان سے کئی گنا زیادہ ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اگر ان کا کلمہ ایک ہو) اور اس قول کے ذریعے ان پر واجب کیا کہ وہ کلمہ ایک کریں۔")
اِس پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
"پس ایسی صورت میں (یعنی جب ان کی تعداد بارہ ہزار ہو) مسلمان یہ عذر نہیں پیش کر سکتے کہ ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہے اور اس لیے وہ اس حکم سے مستثنی ہیں۔ اس کے برعکس ایسی صورت میں ان پر شرعاً واجب ہوگا کہ وہ متحد ہو کر دشمن کے خلاف لڑیں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور انھیں دشمن پر غالب کرے گا۔" ((قدسیوں کے لیے قدرت اور استطاعت کی شروط، از ڈاکٹر مشتاق https://daleel.pk/36962))
ایک طرف جنگی طاقت اور ٹیکنالوجی کے فرق کی ناقابل تردید حقیقت اور دوسری طرف بارہ ہزار کی تعداد سے فقہا کے استدلال کی رعایت، اِس نازک مقام سے پروفیسر صاحب یوں گزرے ہیں:
"۔۔۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ عددی نسبت کا لحاظ تو اس زمانے میں رکھا جا سکتا تھا جب افرادی قوت ہی میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرتی تھی ۔ موجودہ دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فرد کی اہمیت کو نسبتاً کم کر دیا ہے کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کہاں کھڑا ہے؟ اگر مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار ہے مگر اس کے پاس روایتی بندوق ہیں اور دشمن کی تعداد سو ہے مگر اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں تو مقدرت کا اندازہ تعداد سے لگایا جائے گا یا اسلحے کی نوعیت سے ؟ ۔۔۔"امام سرخسی نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ یقینا قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔
إن کان عدد المسلمین مثل نصف عدد المشرکین لا یحل لھم أن یفروا ۔۔۔ وکان الحکم فی الابتداء أنھم إذا کانوا مثل عشر المشرکین لا یحل لھم أن یفروا ۔۔۔ وھذا إذا کان بھم قوۃ القتال بأن کانت معھم الأسلحۃ؛ فأما من لا سلاح لہ، فلا بأس بأن یفر ممن معہ سلاح؛ و کذلک لا بأس بأن یفر ممن یرمي إذا لم یکن معہ آلۃ الرمي۔ ألا تری أن لہ أن یفر من باب الحصن، ومن الموضع الذی یرمی فیہ بالمنجنیق، لعجزہ عن المقام فی ذلک الموضع۔ وعلی ھذا ، لا بأس بأن یفر الواحد من الثلاثۃ، إلا أن یکون المسلمون اثني عشر ألفاً کلمتھم واحدۃ، فحینئذٍ لا یجوز لھم أن یفروا من العدو و ان کثروا، لأن النبي ﷺ قال : لن یغلب اثنا عشر ألفاً عن قلۃ ۔ ومن کان غالباً، فلیس لہ أن یفر۔
(اگر مسلمانوں کی تعداد مشرکین کے نصف کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ فرار اختیار کریں ، اور ابتدا میں حکم یہ تھا کہ اگر ان کی تعداد مشرکین کے دسویں حصے کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ فرار اختیار کرتے ۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب ان میں جنگ کی قوت ہو ، یعنی ان کے پاس اسلحہ ہو۔ پس جس کے پاس اسلحہ نہ ہو اس کے لیے اسلحہ رکھنے والے کے مقابلے سے فرار اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس رمی کا آلہ نہ ہو تو وہ رمی کرنے والے سے فرار اختیار کر لے۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس کے لیے جائز ہے کہ قلعے کے دروازے سے اور اس جگہ سے جہاں منجنیق سے گولے پھینکے جا رہے ہوں فرار ہو جائے کیونکہ وہ اس جگہ ٹھہرنے سے عاجز ہوتا ہے؟ ان اصولوں کی بنا پر تنہا شخص کے لیے تین افراد کے مقابلے سے فرار اختیار کرنا جائز ہے ، سوائے اس حالت کے جب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو اور ان کا کلمہ ایک ہو۔ پس اس حالت میں ان کے لیے دشمن سے فرار اختیار کرنا جائز نہیں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: بارہ ہزار کا گروہ تعداد میں کمی کے سبب سے مغلوب نہیں ہو سکتا ۔ اور جو غالب ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ فرار اختیار کر لے۔) "(قدسیوں کے لیے قدرت اور استطاعت کی شروط)
اِس نتیجہءِ فہم پر عملاً کبھی کسی لشکر، کسی حکومت نے عمل نہیں کیا۔ ایسا کرتے تو بارہ ہزار تک ہی فوج رکھا کرتے۔ بڑی فوجیں رکھنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ مگر پروفیسر صاحب کو اصرار ہے کہ اہل فلسطین اس پر عمل کریں۔ وہ اپنے سے کئی گناہ طاقت ور دشمن سے جنگ میں پیچھے نہیں ہٹ سکتے، کیونکہ بارہ ہزار جنگجو تو اُنھیں میسر ہی ہیں۔ تاہم، وہ اِس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ بارہ ہزار سے زائد 'قدسیوں 'کا لشکر ہر بار مغلوب کیوں ہو جاتا ہے؟ حدیث فقط یہ تو نہیں کہتی کہ بارہ ہزار کا لشکر جنگ سے دست بردار نہیں ہو سکتا، بلکہ اُنھیں مغلوب نہ ہونے کی بشارت سناتی ہے۔ اگر قدسیوں کا ایمان کم زور ہے یا اُن کا کلمہ متحد نہیں تو اِس صورت میں بھی اُنھیں جنگ روک کر پہلے اپنے ایمان کی مضبوطی اور کلمہ کے اتحاد پر کام کرنا چاہیے۔
کم زور مظلومین کے لیے لائحہ عمل وہ نہیں جو فقہا کے ایک غلط استدلال کی بنیاد پر علم و عقل سے دست بردار ہو کر جنگ زدہ فلسطین اور دیگر کم زور مسلمانوں کے لیے تجویز کیا جا رہا ہے، بلکہ وہ ہے جو اللہ تعالی نے سورہ نساء میں مکہ اور گرد و نواح کے مظلوم اور بے بس مسلمانوں کے لیے خود وضع کیا تھا۔
ارشاد ہوا ہے:
وما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ والمستضعفین من الرجال والنساء والولدان الذین یقولون ربنا أخرجنا من ہذہ القریۃ الظالم أہلہا واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیرا (نساء 75)
(ایمان والو)، تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور اُن بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جو فریاد کر رہے ہیں کہ پروردگار، ہمیں اِس بستی سے نکال کہ جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمارے لیے اپنے پاس سے ہم درد پیدا کر دے اور اپنے پاس سے حامی اور مددگار پیدا کر دے۔
کم زور مظلوموں کی مدد کرنا مسلمانوں کی ریاستوں کا فرض ہے۔ وہ اگر اپنا فرض نبھانے کی جرات یا طاقت نہیں رکھتیں تو اب یہ کم زور مظلوموں کا کام نہیں اور نہ یہ اُن کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے حقوق کے لیے خود ہتھیار اٹھا لیں۔ اِس سے اُن کے مصائب میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ مظلوم کا ہتھیار دعا ہے، اسے تلوار اٹھانے کا مشورہ یا حکم خدا نے نہیں دیا۔
موجودہ صورتِ حال میں اہلِ فلسطین کے پاس تین ہی راستے ہیں:
- اگر اُنھیں جنگ سے احتراز کی صورت میں جان، مال اور آبرو کا تحفظ حاصل ہے، تو اُنھیں جو میسر ہے اُس پر قناعت کریں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کو پر امن طریقوں سے جاری رکھیں اور اپنی تعمیر پر توجہ دیں۔
- اگر اُنھیں پر امن رہنے کے باوجود یہ تحفظ حاصل نہیں تو وہ ہجرت کر جائیں۔
- اگر ہجرت کرنے پر پابندی ہے یا ہمسایہ ریاستیں اُنھیں پناہ دینے پر تیار نہیں، تو اب اُنھیں صبر سے عدم تشدد کی پالیسی پر عمل پیرا رہنا ہے، یہاں تک کہ کوئی بیرونی طاقت اُن کی مدد کو آ جائے
پرامن رہنے کے باوجود اُنھیں اگر انخلا پر مجبور کیا جاتا ہے اور عالمی برادری بھی ظالم کا ہاتھ نہیں پکڑتی تو جان اور زمین کے درمیان انتخاب انھیں اپنی جان کا کرنا چاہیے۔ کیونکہ لڑنے کی صورت میں وہ اپنی زندگی اور زمین دونوں گنوا دیں گے۔ انخلا کر جانے کی صورت میں جان تو بچ جائے گی اور جدوجہد کے امکانات پیدا ہوتے رہیں گے۔ مجبوری کے ایسے عالم میں انفرادی سطح پر عقل یہی راستہ سجھاتی ہے۔ اجتماعی معاملے میں بھی اِسی کو اختیار کرنا چاہیے۔
تاہم، اگر پر امن رہنے کے باوجود اُن کی نسل کشی کی جاتی ہے تو اب یہ اضطراری حالت ہے۔ اِس صورت میں اپنے دفاع میں وہ چاہیں تو لڑتے ہوے موت کو گلے لگا لیں۔ لیکن یہ صورتِ حال، درحقیقت اہلِ فلسطین کو درپیش نہیں۔ اُنھیں حماس کی جنگی کارروائیوں کے بعد تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حماس، فقط دفاعی جنگ نہیں لڑتی، بلکہ آگے بڑھ کر اقدام کرتی ہے۔ اور یہ وہ اُس وقت بھی کرتی ہے جب جنگ نہیں ہو رہی ہوتی۔ یہ دفاع نہیں، دعوتِ مبارزت ہے، جسے دے کر وہ زیرِِ زمین چھپ جاتی اور عام لوگوں کو کھلے آسمان تلے بے رحم میزائلوں اور بموں کا نشانہ بننے کے لیے چھوڑ جاتی ہے۔
صرف یہی نہیں کہ کم زور مظلوم کے لیے جوابی طور پر لڑنا دینی فریضہ نہیں، بلکہ مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے لیے حکم یہ ہے کہ جنگ سے پہلے وہ دشمن کی طاقت سے اپنی طاقت کی نسبت کا لحاظ رکھ کر مقاومت کا فیصلہ کرے۔
سورہ انفال کی آیت 65 میں صحابہ کرام کی جماعت کے لیے اُن کے دشمنوں سے جنگ کے لیے یہ نسبت ایک اور دس رکھی گئی تھی۔ کچھ مدت بعد اِسے بھی تبدیل کر کے ایک اور دو کی نسبت قائم کی گئی اور وجہ یہ بتائی گئی کہ اُن میں کچھ کم زوری در آئی تھی۔ یہ کم زوری نئے مسلمان ہونے والوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔
ارشاد ہوا ہے:
یا أیہا النبی حرض المؤمنین علی القتال ۚ إن یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مائتین ۚ وإن یکن منکم مائۃ یغلبوا ألفا من الذین کفروا بأنہم قوم لا یفقہونالآن خفف اللہ عنکم وعلم أن فیکم ضعفا ۚ فإن یکن منکم مائۃ صابرۃ یغلبوا مائتین ۚ وإن یکن منکم ألف یغلبوا ألفین بإذن اللہ ۗ واللہ مع الصابرین (انفال، 8: 65-66)
اے پیغمبر، اِن مومنوں کو (اُس) جنگ پر ابھارو (جس کا حکم پیچھے دیا گیا ہے)۔ اگر تمھارے لوگوں میں بیس آدمی ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے سو ہوں گے تو ہزار منکروں پر بھاری رہیں گے، اِس لیے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو بصیرت نہیں رکھتے۔
اِس وقت، البتہ اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کر دیا ہے، اِس لیے کہ اُس نے جان لیا کہ تم میں کچھ کمزوری ہے۔ سو تمھارے سو ثابت قدم ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر تمھارے ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری رہیں گے۔ اور اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو (اُس کی راہ میں ) ثابت قدم رہیں۔
یہ وہ جماعت تھی جسے خدا کی نصرت حاصل تھی۔ فرشتے اُن کی مدد کو قطار اندر قطار اترنے کے منتظر رہتے تھے۔ اُن کے لیے بھی اُن کے دشمنوں کے مقابلے میں اُن کی کم زوری کی رعایت رکھتے ہوئے طاقت کی نسبت میں تبدیلی کر دی گئی تھی۔ اِس سے یہ تعلیم ملتی ہے طاقت کی نسبت میں یہ رعایت بعد والوں کو بدرجہ اولی ملحوظ رکھنی چاہیے۔ اِن کے ہاں طاقت کی نسبت اب جنگی ٹیکنالوجی کے فرق سے طے ہوگی۔ غرض یہ کہ کامیابی کے امکان کا اندازہ کر کے جنگ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔
نتائج سے بے پروا ہو کر لڑتے چلے جانا، یہ انیسویں اور بیسویں صدی میں نظریہءِ قومیت کے متاثرین کا ایجاد کردہ جنون ہے، جو زمین اور اقتدار کے حصول کو انسانی جان پر فوقیت دیتا ہے، جو غیر قومی اور غیر مقامی انسانوں کی حکومت کو حرام اور ہم قومی اور مقامی حکومت ہی کو جائز تصور کرتا ہے اور اِن چیزوں کے لیے انسانی جانوں کے بے دریغ ضیاع کو قربانی اور شہادت کا نام دیتا ہے۔ نظریہءِ قومیت کا اپنا دین اور اپنی شریعت ہے۔
اِس کے برعکس، خدا کی نظر میں سب سے قیمتی چیز خود انسان ہے، جسے یہ بھی اجازت ہے کہ وہ کلمہءِ کفر کہ کر اپنی جان بچا لے۔ اُس پر مکہ کی مقدس زمین بھی اگر تنگ ہو جائے تو وہ وہاں سے بھی ہجرت کر جائے، مگر بے فائدہ لڑ مر کر 'امر' ہونے کی ضرورت نہیں۔ اندھا دھند شہادتیں دین کا تقاضا نہیں۔
ساری طاقتیں رکھتے ہوئے بھی خدا نے جو رعایتیں جماعتِ صحابہ کے لیے ملحوظ رکھیں، اُنھیں آج کے مسلمان، اُن کے جذباتی دانش ور اور علما غیروں سے سیکھی طرزِِ مقاومت کی بنیاد پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اِس کا نتیجہ مسلسل ہزیمت کی صورت میں سامنے ہے۔ یہ ایسا ہی چلتا رہے گا جب تک وہ ہوش کے ناخن لینے پر تیار نہیں ہو جاتے، کیوں کہ خدا اپنے طریقے بدلنے والا نہیں۔