اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۷)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی


(536) جدال کا معنی

عربی میں جدل اور جدال بحث و مباحثے کے لیے آتا ہے۔ خواہ یہ بحث و مباحثہ دلیل کی بنیاد پر ہو یا دلیل کے بغیر ہو۔ بحث و مباحثہ آگے بڑھ کرجھگڑے کی صورت اختیار کرلے یہ الگ بات ہے لیکن اس لفظ کا اصل معنی جھگڑا نہیں ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف صیغوں میں متعدد بار آیا ہے۔ کہیں مثبت معنی میں ہے اور کہیں منفی معنی میں۔ جدال کا مثبت مفہوم یہ ہے کہ دلیل کے ساتھ بات پیش کی جائے، منفی مفہوم یہ ہے کہ دلیل کے بغیر کٹھ حجتی کی جائے۔ عربی میں لفظ خصومۃ اور لفظ  جدال ہم معنی ہیں۔ قرآن میں بھی یہ دونوں ایک ہی مفہوم میں آئے ہیں۔

لسان العرب میں ہے:

والجَدَل: اللَّدَدُ فِی الخُصومۃ والقدرۃُ عَلَیْہَا، وَقَدْ جَادَلَہُ مُجَادَلَۃً وجِدَالًا۔۔۔ الجَدَل: مُقَابَلَۃُ الْحُجَّۃِ بِالْحُجَّۃِ؛ وَالْمُجَادَلَۃُ: الْمُنَاظَرَۃُ وَالْمُخَاصَمَۃُ۔

القاموس المحیط میں ہے:

والجَدَلُ۔۔۔: اللَّدَدُ فی الخصومَۃِ، والقُدْرَۃُ علیہا۔

الصحاح میں ہے:

وجادَلَہُ، أی خاصمہ، مُجادَلۃً وجِدالاً: والاسم الجَدَلُ، وہو شدّۃ الخصومۃ.

اسی طرح خصومۃ کے بارے میں القاموس المحیط میں ہے:

الخُصومَۃُ: الجَدَلُ.

لسان العرب میں ہے:

خصم: الخُصومَۃُ: الجَدَلُ. خاصَمَہ خِصاماً ومُخاصَمَۃً فَخَصَمَہُ یَخْصِمہُ خَصْماً: غَلَبَہُ بِالْحُجَّۃِ.

درج ذیل آیتوں میں جدال کے ترجموں پر غور کرنے کی ضرورت ہے:

(۱)  وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِینَ یَخْتَانُونَ أَنْفُسَہُمْ۔ (النساء: 107)

’’اور ان کی طرف سے نہ جھگڑو جو اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور مت جھگڑو ان کی طرف سے جو اپنے دل میں دغا رکھتے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور ان لوگوں کی وکالت نہ کرو جو اپنے آپ سے خیانت کررہے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اور لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا آیت میں جدال بحث کرنے اور وکالت کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ جھگڑا تو کر نہیں رہے تھے کہ اس سے روکا جاتا۔   

(۲)   ہَاأَنْتُمْ ہَؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَمَنْ یُجَادِلُ اللَّہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْ مَنْ یَکُونُ عَلَیْہِمْ وَکِیلًا ۔(النساء: 109)

’’سنتے ہو تم لوگ جھگڑے ان کی طرف سے دنیا کی زندگی میں، پھر کون جھگڑے گا ان کے بدلے اللہ سے قیامت کے دن‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’سنتے ہو یہ جو تم ہو دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے جھگڑے تو ان کی طرف سے کون جھگڑے گا اللہ سے قیامت کے دن یا کون ان کا وکیل ہوگا‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’بھلا تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے بحث کر لیتے ہو قیامت کو ان کی طرف سے خدا کے ساتھ کون جھگڑے گا اور کون ان کا وکیل بنے گا؟‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، پہلے مقام کا ترجمہ صحیح اور دوسرے کا صحیح نہیں ہے)

’’(اے مسلمانو!) یہ تم ہو جو دنیاوی زندگی میں ان کی طرف سے جھگڑتے ہو (ان کی طرفداری کرتے ہو)۔ تو قیامت کے دن ان کی طرف سے خدا سے کون بحث کرے گا؟ یا کون ان کا وکیل (نمائندہ) ہوگا؟‘‘۔ (محمد حسین نجفی، پہلے مقام کا ترجمہ صحیح نہیں اور دوسرے کا صحیح ہے)

نہ تو دنیا میں مسلمانوں نے ان کے سلسلے میں جھگڑا کیا تھا اور نہ ہی قیامت کے دن جھگڑا کرنے کا کوئی موقع ہوگا۔ یہاں بھی بحث کرنا ہی مناسب ترجمہ ہے۔

(۳)   یَوْمَ تَأْتِی کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِہَا  (النحل: 111)

’’جس دن ہر جان اپنی ہی طرف جھگڑتی آئے گی‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لیے لڑتا جھگڑتا آئے گا‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)

’’جس دن آوے گا ہر جی جواب سوال کرتا اپنی طرف سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’جس روز ہر شخص اپنی ہی طرفداری میں گفتگو کرے گا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی) 

قیامت کے دن جھگڑا کرنے کا کسی یارا ہوگا؟ ہاں اپنی وکالت کرنے اور اپنے حق میں گفتگو کرنے کے لیے ہر کوئی بے چین ہوگا۔

(۴)   قَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا۔ (المجادلۃ: 1)

’’سن لی اللہ نے بات اس عورت کی جو جھگڑتی ہے تجھ سے اپنے خاوند کے حق میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’بے شک اللہ نے سنی اس کی بات جو تم سے اپنے شوہر کے معاملہ میں بحث کرتی ہے اور اللہ سے شکایت کرتی ہے، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان))

’’بے شک اللہ تعالی نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے معاملہ میں جھگڑتی تھی ‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’یقینا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

آیت میں جس خاتون کی طرف اشارہ ہے، وہ اللہ کے رسول سے بحث کررہی تھی، اسے جھگڑا کہنا مناسب نہیں ہے۔  

(۵)   أَتُجَادِلُونَنِی فِی أَسْمَاءٍ سَمَّیْتُمُوہَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا نَزَّلَ اللَّہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ۔ (الاعراف: 71)

’’کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’کیا تم مجھ سے بحثا بحثی ان ناموں کے بارے میں لگائے ہوئے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ (دادوں) نے ٹھیرا رکھے ہیں اللہ نے تو ان پر کوئی دلیل اتاری نہیں‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)

یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔

(۶)  وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ (الحج: 3)

’’اور بعضا شخص ہے کہ جھگڑتا ہے اللہ کی بات میں بن خبر‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے باب میں بغیر علم (و دلیل) کے جھگڑا کیا کرتے ہیں‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)

’’بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)

یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔

(۷)  وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُنِیرٍ۔ (الحج: 8)

’’اور بعضا شخص ہے جو جھگڑتا ہے اللہ کی بات میں بن خبر اور بن سوجھ اور بن کتاب چمکتی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور انسانوں میں کوئی کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کے باب میں حجت کرتا رہتا ہے بغیر علم کے اور بدون دلیل کے بدون کسی روشن کتاب کے‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)

یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔

(۸)   وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُنِیرٍ ۔ (لقمان: 20)

’’ اور بعضے آدمی اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں یوں کہ نہ علم نہ عقل نہ کوئی روشن کتاب‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے باب میں بغیر واقفیت بغیر دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے بحث کیا کرتے ہیں‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)

یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔

(۹)   فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ إِبْرَاہِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْہُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ۔ (ہود: 74)

’’پھر جب ابراہیم کا خوف زائل ہوا اور اسے خوشخبری ملی ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگا‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’پھر جب گیا ابراہیم سے ڈر اور آئی اس کو خوش خبری جھگڑنے لگا ہم سے قوم لوط کے حق میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’جب ابراہیم سے خوف جاتا رہا اور ان کو خوشخبری بھی مل گئی تو قوم لوط کے بارے میں لگے ہم سے بحث کرنے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

ظاہر بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام بحث کررہے تھے نہ کہ جھگڑا کررہے تھے۔

(۱۰)  وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَائِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ۔ (الانعام: 121)

’’ اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور یقیناً شیطان اپنے دوستوں کو تعلیم دے رہے ہیں تاکہ یہ تم سے (بے کار) جدال کریں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

آخری ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔ شیاطین انسانوں کے دل میں کٹھ حجتی کی باتیں ڈالتے ہیں، جن کے سہارے وہ  کٹھ حجتی کرتے ہیں۔ 

(۱۱)  وَقَالُوا أَآلِہَتُنَا خَیْرٌ أَمْ ہُوَ مَا ضَرَبُوہُ لَکَ إِلَّا جَدَلًا۔ (الزخرف: 58)

’’اور کہتے ہیں کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ انہوں نے تم سے یہ نہ کہی مگر ناحق جھگڑے کو‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور لگے کہنے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے لائے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور کہتے ہیں کہ ہمارے معبود اچھے ہوئے یا وہ؟ یہ بات وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے اٹھاتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

یہ کج بحثی کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔

(۱۲)   قَالُوا یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَکْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ۔ (ہود: 32)

’’آخر کار ان لوگوں نے کہا کہ ،اے نوحؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو‘‘۔ (سید مودودی)

’’بولے اے نوح تم ہم سے جھگڑے اور بہت ہی جھگڑے تو لے آؤ جس کا ہمیں وعدے دے رہے ہو اگر تم سچے ہو‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی اور خوب بحث کر لی۔ اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ، اگر تو سچوں میں ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری ترجمہ مناسب معلوم ہوتا ہے، انھوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو کج بحثی سے تعبیر کیا۔ جھگڑے کا یہ محل نہیں ہے۔

(۱۳)   وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ۔  (النحل: 125)

’’اور جھگڑا کر ان سے ساتھ اس چیز کے کہ وہ بہت بہتر ہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)

’’اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’ اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجیے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

یہاں تو تقریباً سبھی کی رائے ہے کہ جدال بحث کے معنی میں ہے، لیکن حیرت ہوئی یہ دیکھ کر کہ شاہ رفیع الدین نے یہاں بھی جھگڑا ترجمہ کردیا۔

(۱۴)  وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ۔(العنکبوت: 46)

’’اور مت جھگڑو اہل کتاب سے مگر اس طرح سے کہ وہ بہت اچھی ہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)

’’اور جھگڑا نہ کرو اہل کتاب سے مگر اس طرح پر جو بہتر ہو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور اے مسلمانو! کتابیوں سے نہ جھگڑو مگر بہتر طریقہ پر‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’اور تم اہل کتاب سے بجز مہذب طریقہ کے مباحثہ مت کرو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے‘‘ (سید مودودی)

یہاں بھی جھگڑے کا محل بالکل نہیں ہے۔ بحث و مباحثے کے سلسلے میں ہدایت دی جارہی ہے، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اچھے خاصے لوگوں نے یہاں’ جھگڑا‘ ترجمہ کردیا۔

جدال کا ترجمہ جب لفظ اور محل دونوں کی رعایت کرتے ہوئے بحث و مباحثہ کرتے ہیں تو بحث و مباحثہ کے سلسلے میں قرآنی ہدایات کو سمجھنے کی راہ کھلتی ہے۔ جب ہم’ جھگڑا‘ ترجمہ کرتے ہیں تو کئی جگہ ترجمہ بالکل بے محل اور غیر موزوں معلوم ہوتا ہے۔

(537) وَلَا تَہِنُوا فِی ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ

وَلَا تَہِنُوا فِی ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمُونَ۔ (النساء: 104)

’’اِس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں‘‘۔ (سید مودودی، ’تکلیف اٹھا رہے ہو‘، نہیں بلکہ ’تکلیف اٹھاتے ہو‘)

’’اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو اگر تمہیں دکھ پہنچتا ہے تو انہیں بھی دکھ پہنچتا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’ان لوگوں کا پیچھا کرنے سے ہارے دل ہو کر بیٹھ نہ رہو! اگر تمہیں بے آرامی ہوتی ہے تو انہیں بھی تمہاری طرح بے آرامی ہوتی ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، بے آرامی نہیں بلکہ تکلیف)

’’اس (مخالف) جماعت کی تلاش اور تعاقب میں سستی نہ دکھاؤ۔ اگر اس میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے۔ تو انہیں بھی اسی طرح تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)

’’اور خبردار دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی سے کام نہ لینا کہ اگر تمہیں کوئی بھی رنج پہنچتا ہے تو تمہاری طرح کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)

درج بالا آیتوں میں القوم سے مراد کوئی متعین گروہ نہیں ہے، نہ عام گروہ کفار ہے، بلکہ عام دشمن مراد ہیں۔ 

ترجمہ اس طرح کیا جائے گا:

’’دشمنوں کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ اگر تم تکلیف اٹھاتے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھاتے ہیں‘‘۔

(538) لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ

(۱)  إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ ۔(النساء: 48)

’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا‘‘۔ (سید مودودی، یہاں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس لیے ترجمہ ہوگا اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا)

’’بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے‘‘۔ (احمد رضا خان، یہاں کفر کے الفاظ نہیں بلکہ شرک کے الفاظ ہیں۔ شرک کا ترجمہ کفر کرنا درست نہیں ہے)

’’اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے‘‘۔ (ذیشان جوادی، ’معاف کرسکتا‘ نہیں بلکہ ’معاف نہیں کرتا ہے‘ ہونا چاہیے)

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

(۲)   إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ ۔(النساء: 116)

’’اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودی، یہاں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس لیے ترجمہ ہوگا اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا)

’’خدا اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے‘‘۔(ذیشان جوادی، ’معاف نہیں کرسکتا‘ کے بجائے ’معاف نہیں کرتا‘ ہونا چاہیے)

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

’’اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے ‘‘۔ (احمد رضا خان)

(جاری)

قرآن / علوم القرآن

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۰

قراردادِ مقاصد کا پس منظر اور پیش منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دستور میں حکومتی ترامیم: ملی مجلسِ شرعی کا موقف
ڈاکٹر محمد امین

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی

انسانیت کے بنیادی اخلاق اربعہ (۱)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مسئلہ جبر و قدر: متکلمین کا طریقہ بحث
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

’’اقوالِ محمودؒ‘‘ سے ’’نکہتِ گُل‘‘
مولانا فضل الرحمٰن

علما کیا خاموش ہو جائیں؟
خورشید احمد ندیم

مدارس دینیہ میں تدریسِ فقہ: چند غور طلب پہلو
ڈاکٹر عبد الحئی ابڑو

اہلِ کتاب خواتین سے نکاح: جواز و عدم جواز کی بحث
مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

جارج برنارڈشا کی پیشِین گوئی
حامد میر

سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، اردو کے پہلے ادیب و مصنّف
طفیل احمد مصباحی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۲)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

عہد نبوی میں رقیہ اور جلدی امراض کی ماہر خاتون
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

افغانستان میں طالبان حکومت کے تین سال
عبد الباسط خان

سائنس یا الحاد؟
ہلال خان ناصر

ختمِ نبوت کانفرنس مینار پاکستان پر مبارکباد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

A Glimpse of Human Rights in Islam
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter