دعوت کے مختلف وسائل و ذرائع
عمومی طور پر دعوت و تبلیغ کے تین وسائل و ذرائع بیان کئے جاتے ہیں۔
(داعی یا داعیہ کی مثالی سیرت و کردار کے ذریعے تبلیغ) اسی بات کو ذرا مختلف انداز میں ڈاکٹر عبد الکریم زیدان یوں بیان کرتے ہیں کہ: تبليغ الدعوة إلى الله تكون بالقول و بالعمل وبسيرة الداعي التي تجعله قدوة حسنه لغيرہ فتجذهم إلى الإسلام9۔ (یعنی دعوت الی اللہ زبان کے ذریعے سے ہو، عمل کے ذریعے سے ہو اور داعی مخلصین کی اعلیٰ سیرت و کردار کے ذریعے ہو۔)
(۱) زبانی تبلیغ
زبانی تبلیغ کا مطلب یہ ہے کہ زبان کے ذریعے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا، ان کو وعظ و نصیحت کرنا، ان کی اصلاح کرنا، ان پر مناسب موقع پر نکیر کرنا وغیرہ، یہ زبانی تبلیغ ہے۔ دعوت و تبلیغ میں قولی اور زبانی دعوت کو بہت اہمیت حاصل ہے، اور تمام انبیاء کرامؑ نے اپنی اپنی امتوں کو احکام الہی زبانی طور پر پہنچائے۔ اس ضمن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے کچھ اس طرح فرمایا کہ: کہنے کا بھی طریقہ ہوتا ہے، کہنا کبھی صراحتہً ہوتا ہے اور کسی تدبیر سے موقع محل کا خیال کرنا چاہیے، یاد رکھو نصیحت میں سختی ہرگز نہ کرو، لطافت اور نرمی سے کہو اور اگر ممکن ہو تو زبان سے کہہ کر اپنی بات سناؤ اور بعض اوقات کچھ نہ کہنے کا بھی اثر ہوتا ہے، جہاں جو طریقہ مناسب ہو، اسی کو اختیار کرنا چاہیے10۔ البتہ ایک داعی یا داعیہ کے لئے ز بانی تبلیغ میں چند امور کو مدِنظر رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ بجائے فائدے کے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ وہ امور درج ذیل ہیں:
۱۔ زبان کی حفاظت کرنا
عام طور ہر دیکھا جاتا ہے کہ زبان کی بے احتیاطی کی وجہ سے اختلاف و نزاع پیدا ہوتا ہے، اگر کوئی داعی یا داعیہ معمولی سی توجہ بھی اس طرف دے تو کبھی بھی اختلاف کی نوبت نہ آئے۔ جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا11۔ (انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں، اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ )اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ ایک داعی یا داعیہ کے لئے زبان کی حفاظت کا اہتمام کرنا کس قدر ضروری ہے۔
۲۔ بلا تحقیق گفتگو نہ کرنا
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ ایک داعی یا داعیہ کسی کے بارے میں سنی سنائی بات پر عمل درآمد کر لیتے ہیں، اس سے بد گمان ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ دوسروں سے بھی اس کو بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے باہم نزاع و لڑائی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بلا تحقیق گفتگو کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح ایک داعی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کلام بہتان تراشی اور لعن طعن پر مشتمل نہ ہو بلکہ اس کی زبان آسان فہم اور قرآن و سنت سے مزین ہو، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ12۔ (اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، (٣) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔ )اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے کہ جو سبی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بیان کر دے، اس طرح آپﷺ نے فرمایا: كفى بالمرء كذبا، ان يحدث بكل ما سمع13۔ (آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ جو سنے اس کو بیان کرے۔) لہذا یہاں سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ بلا تحقیق گفتگو کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے لہذا ایک داعی یا داعیہ کو دوران تبلیغ اس سے بچنا چاہیے، تاکہ اس کی بات مؤثر ہو سکے۔ ویسے بھی عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی شخص کے بارے میں یہ بات عام ہو جائے کہ اس کی بات کی سند مضبوط نہیں ہوتی یا یہ کہ یہ شخص جھوٹ بھی بولتا ہے تو اس کے بعد معاشرے میں اس شخص کی اپنی شخصیت متنازعہ ہو جاتی ہے۔
۳۔ داعی کا کلام’’کلامِ ایجاز‘‘ ہو
داعی یا داعیہ کو چاہیے کہ وہ مختصر مگر گامع انداز میں اپنی بات سامعین تک پہنچائے۔ ایجاز سے مراد یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں معنی کو واضح کر دیا جائے یعنی مخاطبین کے سامنے بہت لمبی چوڑی گفتگو کرنے کی بجائے مختصر الفاظ کا چناؤ کیا جائے تاکہ مخاطب داعی یا داعیہ کی بات سن کر فوراً سمجھ جائے اور کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ جیسا کہ حضرت اسماءؓ نے اپنے بیٹوں کو مختصر انداز میں دعوت پیش کی تھی۔ کیونکہ جب الفاظ نپے تلے ہوں اور پراثر ہوں تو بات سیدھی مخاطب کے دل میں اتر جاتی ہے۔
زبانی تبلیغ کی مختلف اقسام
اب ہم زبانی تبلیغ کی مختلف اقسام بیان کرتے ہیں۔
۱۔ خطبہ
۲۔ لیکچر
۳۔ درس
۴۔ بحث و مباحثہ یا ٹیبل ٹاک (مناظرہ)
۵۔ علمی سیمینارز یا کانفرنسز
۶۔ آن لائن ویڈیو بیانات
۱۔ خطبہ کے ذریعہ دعوت
داعی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا خطبہ یا تقریر زیادہ لمبی نہ ہو جس سے سامعین اکتا جائیں، دوسرا یہ کہ موسم کا بھی لحاظ رکھا جائے، کبھی سخت سردی یا سخت گرمی میں بھی کوئی چیز سننا مشکل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں امین احسن اصلاحیؒ کا قول پہلے گزر چکا کہ: ’’کلام مبین کا مطلب ہے کہ وہ اپنے وقت کی اس بولی میں گفتگو کرتے ہیں جو زیادہ خوبی اور صفائی کے ساتھ حروف مدعا کو قوم کے ہر حلقہ تک پہنچا سکے، اس میں نہ اجمال و ابہام ہوتا ہے، نہ غیر ضروری طوالت۔14‘‘
۲۔ لیکچرز کے ذریعہ دعوت
زبانی تبلیغ کا ایک ذریعہ لیکچر ہے، اس میں کوئی متعین موضوع ترتیب سے جمع کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک علمی بیان ہوتا ہے جو جوش و جذبات سے بالکل عاری ہوتی ہے۔ لیکچر ایک متعین موضوع پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اس موضوع کے تمام دلائل بیان کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمد عمر لکھتے ہیں:’’ لیکچر دیتے وقت ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ وہ درس ہو، اس میں زائد از ضرورت اور جذباتی گفتگو نہ ہو کیونکہ جذباتی طرزِ گفتگو تقریر میں ہوتا ہے۔ لیکچر کی ایک ضرورت یہ ہے کہ موضوع کے مقدمات اور اس کے نتائج میں سامعین کو شریک رکھا جائے تاکہ جن نتائج پر لیکچر منتج ہوا، سامعین بھی ان نتائج تک پہنچ سکیں15۔‘‘
۳۔ درس و تدریس کے ذریعے دعوت
درس بھی زبانی تبلیغ کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اس لئے کہ درس کے اندر جتنے مخاطبین ہوتے ہیں، داعی حضرات یا داعیات ان کی ضرورتوں اور دلچسپیوں سے واقف ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان سامعین کو اپنے معلم یا داعی سے ایک خاص انسیت بھی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ابو الفتح البیانوی لکھتے ہیں: ’’اکثر درس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ قرآن کی آیت یا حدیث یا فقہی مسائل کی تشریح کر دی جائے اور حاضرین کی تعداد مختصر و محدود ہے تو داعی کو یہ موقع میسر آجاتا ہے کہ وہ حاضرین کو اچھی طرح نصیحت کر سکے۔ داعی درس کو طویل نہ کرے کیونکہ زیادہ طوالت سے سامعین اکتا جاتے ہیں16۔‘‘ اسی طرح بعض اوقات تربیتی نشستوں کا بھی ایک محلے کی مسجد کی سطح پر یا علاقے کی جامع مسجد کی سطح پر انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں مختلف اسکالرز تشریف لاتے ہیں اور دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، لہذا داعیات کو بھی اس میدان کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ عمومی طور پر خواتین کی تربیتی نشستوں کا اہتمام مردوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے، لہذا داعیات کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں آگے بڑھ کر اپنی خدمات انجام دیں۔
۴۔ بحث و مباحثہ یا ٹیبل ٹاک
کبھی کبھی ایک خاص عنوان کے تحت تیاری کر کے اہل علم حضرات آمنے سامنے گفتگو کرتے ہیں اور اس کو بحث و مباحثہ یا ٹیبل ٹاک کا نام دیا جاتا ہے، لیکن ایک داعی یا داعیہ کو اس سلسلے میں یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مباحثہ یا مناظرہ صرف اس نیت سے کیا جائے کہ حق بات کو واضح کیا جائے نہ کہ دل میں فریقِ مخالف کو ہرانے کا یا نیچہ دکھانے کا جذبہ ہو۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محی الدین رقم طراز ہیں کہ: ’’بحث و مناظره دو یا زیادہ افراد کے درمیان ہوتا ہے اور اس میں ہر فریق اپنی رائے اور نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے اور جب داعی مخاطب کو اللہ کی جانب بلاتا ہے اور وہ حق کو قبول نہیں کرتا اور داعی سے بحث و مناظرہ پر تیار ہو جاتا ہے، اس صورتحال میں داعی کو سکون و اطمینان اور مخاطب پر شفقت و نرمی ترک نہیں کرنی چاہئے۔ اگر مخاطب اپنے باطل پر مصر ہے تو پھر داعی کے لئے مناسب ہے کہ وہ اس سے مزید بحث نہ کرے17۔‘‘
۵۔ علمی سیمینارز یا کانفرنسز
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، تمام شعبہ ہائے زندگی میں جدت آگئی ہے۔ عوام الناس بھی اب بہت حد تک سمجھدار ہو گئی ہے اور بہت سے ایسے نام نہاد اسکالرز سے جو دینِ حق کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے، ان سے متنفر ہو کر ان کو سننا چھوڑ چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب عوام کے لئے علمائے حق کی جانب سے علمی سیمینارز یا کانفرنسز کا اہتمام بہت نچلی سطح تک ہو رہا ہے۔ لوگ اب خصوصی دلچسپی کے ساتھ ان سیمینارز میں شرکت کرتے ہیں لہذا عصر حاضر کی داعیات کو چاہیے کہ وہ بالخصوص خواتین کی اصلاح و تربیت کی نیت سے ایسی کانفرنسز کا اہتمام کریں جن میں بالخصوص خواتین کو مدعو کیا جائے، کیونکہ ایک عورت کی اصلاح سے پورا خاندان اصلاح پا جاتا ہے۔ آج کل تو آنلائن سیمینارز اور کانفرنسز بھی ہو رہے ہیں جن میں تمام سامعین اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے ان میں شامل ہو جاتے ہیں لہذا بہت زیادہ اخراجات سے بھی داعیات اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اس طرح سے تبلیغ ِ دین کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہیں۔
۶۔ آن لائن ویڈیو بیانات
اسی طرح تبلیغ دین کے ذرائع میں دور حاضر میں ایک جدید اور پراثر ذریعہ آنلائن ویڈیو بیانات کا ہے جس میں داعی یا داعیہ براہ راست یا ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنے بیانات پھیلا دیتے ہیں اور عوام الناس جب چاہیں، انٹرنیٹ کا استعمال کر کے ان بیانات کو سن سکتے ہیں۔ لہذا داعیات کو بھی چاہیے کہ وہ شرعی پردے کا خیال رکھتے ہوئے اس میدان میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ اگر انٹرنیٹ پر ان کے بیانات میسر ہوں گے تو ہماری وہ خواتین، جو گھریلو مصروفیات کی وجہ سے گھروں سے نہیں نکل سکتیں، وہ بھی ان بیانات سے مستفید ہو سکیں گی۔
(۲) تبلیغ بذریعہ تحریر
قلم و تحریر اور صحافت کے ذریعے تبلیغ، دعوت الی اللہ کی ایک تحریری قسم ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً خطوط، رسائل، کتابیں وغیرہ۔ آج کل دنیا میں کتابوں کی کمی نہیں ہے، ہر گھر میں بلکہ ایک چھوٹے سے مکتب میں بھی کتابوں کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ کتاب اور چھپائی کی حیرت انگیز ایجاد نے کتابت کی صنعت کو مزید ترقی دی، آج کی دنیا ایک ترقی یافتہ دنیا ہے، روزانہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں چھپتی ہیں، موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے دو چیزیں داعیان ِحق کے لئے نہایت اہم ہیں:
۱۔ موجود و سائل و ذرائع کو بہتر ڈھنگ سے استعمال کریں، جن کے ذریعہ ہم مخاطبین کی شخصیت کی تعمیر کر سکیں اور نئی نسل کی بہتر تربیت کر سکیں۔
۲۔ کتابوں کے اس بازار میں جو ظاہری خامیاں ہیں، ان کی اصلاح کریں۔
تحریری دعوت کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:
• خطوط اور رسائل
• تصنیف و تالیف• صحافت
۱۔ دعوت بذریعہ خطوط اور رسائل
خطوط و رسائل دعوت و تبلیغ کا نہایت ہی مؤثر طریقہ ہے۔ رسالہ کبھی تو کسی متعین موضوع پر ایک کتابچہ ہوتا ہے اور کبھی ایک شخص دوسرے کو خطاب کر کے کچھ لکھتا ہے، جس کو خط سے تعبیر کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے بھی از خود دعوت الی اللہ کے سلسلے میں خطوط و رسائل سے مدد لی ہے، آپﷺ نے دنیا کے مختلف بااثر لوگوں، بادشاہوں اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے اور تبلیغِ حق کا فریضہ انجام دیا۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ خطوط و رسائل کے ذریعے دعوت کا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ خود صحابیاتؓ کی سیرت سے بھی یہ اسلوب ہمیں ملتا ہے۔ اس ضمن میں اماں عائشہ صدیقہؓ کا وہ خط مشہور ہے جو انہوں نے سیدنا امیر معاویہؓ کو نصیحت طلب کرنے پر لکھا تھا۔ اسی طرح آج کل بعض مدارس یا یونیورسٹیز ماہانہ سطح پر مختلف دعوتی عنوانات کے تحت رسائل کا اجراء بھی کرتے ہیں، لہذا داعیات کو چاہیے کہ وہ بھی اس میدان میں خلوصِ نیت کے ساتھ ایسے رسائل کا اجراء کریں جو بالخصوص خواتین کے معاملات سے متعلق ہوں۔
۲۔ تصنیف و تالیف
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی موضوعات پر مشتمل تحریکی و دعوتی کتب کا جو خلاء ہے، اس کا پُر ہو نا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ میدان وسیع اور کھلا ہوا ہے، ضرورت صرف صبر اور احتیاط کی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم دین میں گہری بصیرت حاصل کریں۔ کسی موضوع پر لکھتے ہوئے اس بات کی کوشش کی جائے کہ ہم اس میں ایسا مواد اکھٹا کریں جو اس سے پہلے کسی اور نے نہ کیا ہو اور اسی طرح اپنی تحریر یا کتاب کو منظر عام پر لانے سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے علماء و محققین کے نقطہ ہائے جان لیں تاکہ اس کتاب کو اہلِ علم حضرات کی جانب سے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ایسا مواد اکٹھا کیا جائے جو دعوتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں معاون ثابت ہو۔
اس ضمن میں سید قطب شہیدؒ تحریر کرتے ہیں:
قلم و تحریر کے ذریعے دعوت کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً داعی جن کو دعوت حق دینا چاہتا ہے انہیں خطوط لکھے، کتا ہیں اور مضامین تحریر کرے، دعوتی مقالات تحریر کرتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان تحریروں کی زبان سہل ہو اور لوگ ان کو بخوبی سمجھ سکیں18۔
لہذا عصر حاضر کے داعی یا داعیہ کو چاہیے کہ وہ میدانِ دعوت میں ان باتوں کا خصوصی خیال رکھے۔
۳۔ صحافت
فن صحافت کی اہمیت میں عالمی پیمانے پر دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، خصوصاً وہ ممالک جنہیں فکر و عمل کی پوری آزادی ہے، وہ اس میدان میں سب سے آگے ہیں، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کامیاب صحافی پوری قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ لہذا دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا البتہ اس سلسلے میں چند اصول ایک داعی یا داعیہ کو ہمیشہ یاد رکھنے چاہییں۔
صحافت کے اصول
اب ہم اسلامی نقطہ نظر سے صحافت کے چند اصول ذکر کرتے ہیں جن کو اپنا کر ایک داعی یا داعیہ صحافت کے میدان میں بھی دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔
۱۔ داعی کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے
ظلم قیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے، لہذا اس گناہ سے خود بھی بچنا اور امت کو بھی اس سے بچانا ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے۔
۲۔ فحاشی و عریانی کا سدِ باب کرنا چاہیے
ایک داعی کو معاشرے میں فحاشی و عریانی پھیلانے والوں کا بھی سدِباب کرنا چاہیے کیونکہ اس کے سدباب کا حکم درحقیقت اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ: اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ19۔ (بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ )اسی طرح ایک داعی یا داعیہ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بے حیائی کا قلع قمع اس لئے بھی کیا جائے کہ دراصل بے حیائی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے۔
۳۔ صحافت کے ذریعے کسی کی دل آزاری نہ کی جائے
اس میدان میں کام کرنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی کسی تحریر یا تقریر سے کسی مخاطب کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے یا کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ایک داعی یا داعیہ کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ20۔ (اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔) اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحافت کے میدان میں کام کرنے والے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کسی کی بلا وجہ دل آزاری نہ ہو بلکہ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ صحافت کے ذریعے تعمیر سیرت اور دعوت الی اللہ کا کام ہو۔ ایک داعی صحافی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اچھائی کی دعوت دیں اور برائی سے روکیں، لیکن کسی کی برائی تلاش کرنے کا کام ان کے لیے مفید نہیں ہے اور نہ وہ کسی کے نجی معاملات میں تجسس کرے۔
۴۔ بلا تحقیق کوئی خبر یا بات شائع نہ کی جائے
صحافت کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ کوئی خبر بغیر تحقیق کے شائع نہ کریں، اگر وہ خبر واقعی سچی ہے تو اسے شائع کیا جائے اور اس میں کوئی ایسا پہلو ضرور رکھیں جس سے دعوت کا پہلو نکلتا ہو۔ مثلاً عبرت یا رغبت و غیرہ۔ کیونکہ بغیر تحقیق کے بات کرنا حکمِ الہی کی بھی خلاف ورزی ہے۔
(۳) عمل کے ذریعے دعوت
دعوت و تبلیغ کا تیسرا ذریعہ عمل ہے کہ داعی اپنے کردار اور عمل کو اتنا اعلیٰ اور اچھا بنائے کہ لوگ اس کے طرز زندگی کو دیکھ کر متاثر ہو جائیں اور دعوت الہی کو خودبخود قبول کرتے چلے جائیں۔ صحابیاتؓ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ وہ عوام کے درمیان اپنے اخلاق و عادات اور مضبوط کردار کی وجہ سے ضرب المثل ہوتی تھیں، اس لیے عصر حاضر کی داعیہ کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنی ذات کی اصلاح ہے اور پھر اپنی شخصیت کو عوام کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کر کے دعوت دینا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی جب دعوت کا آغاز کیا تو سب سے پہلے مشرکین ِ مکہ کے سامنے اپنا کردار پیش کیا اور کردار ایسا تھا کہ شدید دشمن بھی آپﷺ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ خود اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی مبارک ذات کو امت کے لئے آئیڈیل اور قابلِ تقلید قرار دیا ہے۔ ویسے بھی ایک فطری بات ہے کہ جب سامع یہ دیکھتا ہے کہ نصیحت کرنے والا بذاتِ خود اس بات پر عمل نہیں کر رہا تو ایسی صورت میں اس کے اپنے دل میں بھی وہ نصیحت زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اسی بات کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بات نہ کریں کہ جس پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ21۔ (اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ بات بڑی قابل نفرت ہے کہ تم ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔ )لہذا ایک داعی یا داعیہ کو اپنا کردار سب سے پہلے عوام الناس کے سامنے بطور مثال پیش کرنا چاہیے، اس کے بعد ان کو دعوت الی اللہ کی طرف راغب کرنا چاہیے، اس بات سے اس داعی کے کلام میں تاثیر بھی زیادہ ہوگی اور سامعین پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔
جدید ذرائع ابلاغ اور دعوت و تبلیغ
بیسویں صدی درحقیقت سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ اس صدی کے اوائل سے سائنس کی انقلابی ایجادات نے تہلکہ مچا رکھا ہے اور نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ ان ایجادات نے زندگی کے تمام شعبہ جات کو متاثر کیا ہے۔ روز مرہ زندگی میں کام کرنے والی اشیاء زندگی کا لازمی بن گئی ہیں۔ انٹرنیٹ، ریڈیو، ٹی۔ وی، وی۔ سی۔ آر، ٹیپ ریکارڈر، موبائل فون اور الیکٹرانکس نے تمام ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر کے انٹرنیٹ کی بدولت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، 4۔جی (4G) اور اب اس کے بعد 5۔جی (5G) نے دنیا کے تمام فاصلے مٹا دیئے ہیں۔ سمندر پار رہنے والے لوگ بھی اب ایک دوسرے کے پل پل کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں ایک داعی یا داعیہ کو انٹرنیٹ سمیت جدید ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس حوالے ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کہتے ہیں:’’ آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، دنیا میں نت نئے ایجادات روز معمول بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کے تمام شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کل تک بادشاہوں اور حکمرانوں کو باخبر رکھنے کے لئے ہر کاروں اور وقائع نگاروں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور حالات و واقعات سے صرف اہل اقتدار ہی مستفید ہوتے تھے لیکن آج کے دور نے ابلاغ کے تمام ذرائع کو ہر امیر غریب کے گھر تک پہنچا دیا ہے22۔‘‘
مختلف ذرائع ابلاغ
۱۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ریڈیو کا استعمال
دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ریڈیو سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس کام کے لیے الگ ریڈیو سٹیشن قائم کر سکتے ہیں اور اس کے قیام کے دوران اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ مفید اور عام فہم پروگرام سامعین کو سنائے جائیں اور ہر ماہ اور ہر موسم کے خاص حالات کے متعلق احکام و مسائل کو بیان کیا جائے۔ ریڈیو کے بارے میں مفتی محمد شفیع عثمانیؒ لکھتے ہیں: ’’ریڈیو کا استعمال اگرچہ عام حکومتوں اور عوام کی بد مذاقی سے مخرب اخلاق اور غیر مشروع چیزوں میں زیادہ تر کیا جا رہا ہے، لیکن خبروں اور دوسری مفید اور جائز معلومات کا درجہ بھی اس میں خاص اہمیت رکھتا ہے23۔‘‘ موجودہ دور میں ریڈیو اسٹیشن کی یہی حیثیت ہے جو ایک نشر و اعلام کا آلہ ہے، جس کا استعمال برائی کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے اور بھلائی کے لئے بھی۔ اس کے ذریعے دینی پروگرام پیش کئے جائیں۔
۲۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ٹی-وی کا استعمال
اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر ایک داعی یا داعیہ دعوت الی اللہ کا کام بہترین انداز میں کر سکتے ہیں اور بلاشبہ اس کا استعمال آج بہت سے مذہبی اسکالرز دعوت کے لئے کر بھی رہے ہیں۔ اس معاملے میں ٹی-وی کو چند خصوصیات حاصل ہیں جن کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
- اندرونِ ملک اسلامی خبروں اور حالات حاضرہ سے باخبر رہنا
- بیرونِ ملک اسلامی خبروں اور عالمی حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا
- امت مسلمہ سے متعلق اہم خبروں، حالات و حادثات کی ویڈیوز کو براہ راست دیکھنا
- دنیا بھر کے ممتاز اور جید علماء اور اسکالرز کے بیانات سے براہ راست مستفید ہونا
ان خصوصیات کی وجہ سے یہ بات مانی جا چکی ہے کہ ٹی-وی نے آج کی دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ ٹی-وی پر چلنے والی خبریں کچھ اس انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ سامعین کو ان کی سچائی میں ذرہ برابر بھی شک نہیں رہتا لیکن دوسری طرف اس کے نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ ٹی-وی کے تعلیمی و تربیتی اور معلوماتی پروگرام بے حیائی اور فحاشی کی گندگیوں (اشتہارات) سے خالی نہیں ہیں۔ اسی (ٹی-وی) کے ذریعے ہی ملٹی نیشنل کمپنیز تجارت کی بلندیوں پر پہنچی ہیں۔ ٹی-وی کے جواز کے سلسلے میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ہم ٹی-وی رکھیں گے لیکن اس پر تفریحی پروگرام، فلم، سیریل، ناچ گانا نہیں دیکھیں گے، لیکن ایسی صورت میں ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان میں نسبتاً کم لیکن تمام خرابیاں موجود ہیں۔ عرب کے اکثر علماء ٹیلی ویژن کی تصویر کو تصویر کے حکم میں نہیں مانتے، اس لیے وہ ٹیلی ویژن پر ہر اس پروگرام کو جائز سمجھتے ہیں، جس میں کوئی قباحت اور غیر شرعی افعال نہ ہوں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس ذریعہ سے تبلیغِ دین اور درس و تدریس کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ بالفعل اس میں حصہ بھی لیتے ہیں، ان علماء کرام میں علامہ یوسف قرضاوی، شیخ صالح فوزان، شیخ ابراہیم الشریم جیسے نام قابل ذکر ہیں۔
۳۔ دعوت و تبلیغ کے میدان میں انٹرنیٹ کی اہمیت
جس طرح اخبار، کتب، رسالے، ٹی-وی وغیرہ ابلاغ کے ذرائع ہیں ایسے ہی انٹرنیٹ دور حاضر کا سب سے جدید اور تیز ترین ذریعہ ابلاغ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری صدی انٹرنیٹ کی صدی ہے۔ انٹرنیٹ اپنے خیالات کو پھیلانے اور مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ایک آلہ ہے، اس پر باطل اقوام کی اجارہ داری ہونے کی وجہ سے اس کو بسا اوقات اسلام کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے لیکن صرف اسی بات پر اسے شجر ممنوعہ قرار دینا درست نہیں ہے، بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے ذریعے متلاشیان حق کو صحیح غذا پہنچانے کا بندوبست کریں۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ کے لئے اس کا استعمال نہ صرف درست ہے بلکہ یہ دعوت و تبلیغ کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر دعوت کا کام مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے۔
فیس بک:
فیس بک پر اپنے نام سے پیج بنا کر اس پر اپنے ویڈیو بیانات اور مختلف موضوعات پر اپنی تحریرات اور کالمز سے عوام الناس کو مستفید کرنا۔ جیسا کہ آج کل بہت سے اسکالرز (داعی اور داعیات) اس طرح سے دعوت الی اللہ کا کام کر رہے ہیں۔ فیس بک کا استعمال عصر حاضر میں تقریباً ہر طبقہ ہائے زندگی کے افراد کرتے ہیں، امیر و غریب سبھی اس وقت اسمارٹ فونز کی مدد سے فیس بک کا استعمال کرتے ہیں، اس لئے ایک داعی یا داعیہ اگر اس پلیٹ فورم پر کام کریں گے تو ان کی دعوت ہر خاص و عام تک پہنچے گی۔
ٹویٹر:
ٹویٹر بھی اس وقت دعوت کے لئے ایک موزوں ذریعہ ہے۔ دنیا بھر کے لاکھوں لوگ ٹویٹر پر ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے اور بالخصوص عرب کے نامور علماء اور اسکالرز ٹویٹر کے ذریعے دعوت الی اللہ کا فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ لہذا پاکستان میں موجود داعی حضرات اور داعیات ِاسلام کو بھی اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنی چاہیے۔
واٹس ایپ:
عصر حاضر میں واٹس ایپ بھی فیس بک کی طرح ایک ایسی سہولت ہے، جو امیر و غریب تمام ہی استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایک داعیہ واٹس ایپ گروپ بنا کر اس میں مختلف خواتین کو شامل کر لے تو تمام خواتین بیک وقت اس داعیہ کے اصلاحی بیانات اور دیگر دعوتی مواد سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وقت کا تعین اس میں ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی وقت میں داعیہ اپنے اوقات میں سے وقت نکال کر اس میں معلوماتی مواد مہیا کر سکتی ہے، اس وقت بیشمار واٹس ایپ گروپس ایسے ہیں جو آن لائن درس و تدریس، حفظِ قرآن اور ناظرہ اور آن لائن دارالافتاء جیسی دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ داعیات کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے کہ یہ سب سہولیات خواتین کے لئے بھی مہیا کی جا سکیں، تاکہ مردوں کے ساتھ ساتھ گھریلو خواتین بھی ان سے مستفید ہو سکیں۔
یوٹیوب:
یوٹیوب پر اپنا دینی چینل بنا کر اس میں اپنے ویڈیو بیانات اور اصلاحی دروس کو ڈال دیا جاتا ہے اور لوگ انٹرنیٹ کی مدد سے ان تک دسترس حاصل کر لیتے ہیں۔ اس پلیٹ فورم پر بھی بے شمار علماء اور اسکالرز دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ لہذا داعیات کو بھی اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنی چاہیے۔ عمومی طور پر وہ گھریلو خواتین جو اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے گھر سے باہر جا کر کسی باقاعدہ مکتب کے ذریعے درس و تدریس نہیں کر سکتیں، وہ یوٹیوب کے ذریعے گھر بیٹھ کر اسلامی معلومات حاصل سکتی ہیں۔ ویسے بھی دیکھا گیا ہے کہ خواتین کسی بھی معاملے میں رہنمائی لینے کے لئے سب سے پہلے یوٹیوب کا دروازہ ہی کھٹکھٹاتی ہیں، جیسا کہ مختلف انواع و اقسام کے کھانے بنانے کی ترتیب وغیرہ عام طور پر عورتیں یوٹیوب سے سیکھتی ہیں، لہذا اگر یوٹیوب پر ان کے لئے دعوتی و اصلاحی مواد مہیا کر دیا جائے تو یقیناً وہ اس سے بھی مستفید ہوں گی۔ ایک داعیہ کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے غور و فکر کرے۔
دعوت کے اہداف جو ایک داعیہ کے پیشِ نظر رہنے چاہئیں
داعیات کو دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے مختلف اہداف کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ بنیادی طور پر امتِ مسلمہ کو دین کی تبلیغ کرنے کے علاوہ دیگر بہت سے ایسے اہداف ہیں، جو ایک داعیہ کے پیشِ نظر ہونے چاہئیں۔
۱۔ امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کو پیدا کرنا
اگر ایک طائرانہ نگاہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے موجودہ احوال پر ڈالی جائے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ فلسطین سے لیکر برما اور کشمیر تک دنیا کے ہر خطہ میں مسلم قوم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور پھر اس پر ظلم یہ کہ کسی بھی عالمی نظام انصاف کے پلیٹ فورم سے مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔ امت مسلمہ کی جان، مال، عزت و آبرو کو بالکل بھی تحفظ نہیں ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسی صورتحال سے مسلم امہ بذاتِ خود بہت حد تک ناواقف ہے۔ مسلمان خود مسلمانوں کے حالات سے ناآشنا ہیں جس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی آپس کی رنجشیں اور بے حسی ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے امت مسلمہ کی باہمی محبت اور اتحاد کی مثال دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ: الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا24۔ (ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک عمارت کے مانند ہے، جس کی ایک (اینٹ) دوسری (اینٹ) کو مضبوط کرتی ہے۔) لیکن آج امت مسلمہ اس قدر بے حس ہو چکی ہے۔ ایک داعی یا داعیہ کو دورانِ تبلیغ اس بات کی طرف بھی توجہ ملحوظ خاطر رکھنی ہے کہ وہ امت مسلمہ میں یہ جذبہ دوبارہ سے ابھار سکے۔ ان میں یہ احساس دوبارہ سے پیدا کر سکے کہ ہم مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور ہمیں باہمی اتحاد اور محبت کی فضا کو دوبارہ سے قائم کرنا ہے۔ ایک داعیہ کا فرض ہے کہ وہ امت مسلمہ بالخصوص خواتین اسلام کو صحابیاتؓ کی مبارک زندگیوں سے متعارف کروائے تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام واپس لے سکیں۔ امت کو یہ بات باور کروانا ایک داعیہ کا فرض ہے کہ ہم جب تک اپنے اسلاف بالخصوص صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے، ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔
۲۔ امت کو ’’وہن‘‘ کی بیماری سے نجات دلانا
ایک داعی یا داعیہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امت مسلمہ میں یقین محکم، عمل صالح، خوفِ الہٰی اور فکر آخرت کا شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی باقاعدہ دعوت دینے کی ضرورت ہے کہ امت اپنے دل و دماغ سے’’ وہن‘‘ کی بیماری کو یعنی دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی یا کراہت کو ختم کر دے، کیونکہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے، موت کی ناپسندیدگی بزدلی اور غیروں کی غلامی کا سبب بنتی ہے۔ جب ہم اس بیماری سے نجات پا جائیں گے تو اس کے نتیجے میں بہت سی مشکلات پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔
۳۔ امت مسلمہ میں حصولِ علم کا جذبہ پیدا کرنا
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسی امت ہیں کہ جن کے نبی ﷺ کو استاد اور معلم بنا کر مبعوث کیا گیا لیکن اس کے باوجود آج ہماری امت تعمیر و ترقی تو ایک طرف، بنیادی دینی تعلیم سے بھی نابلد ہے۔ لوگوں کو بنیادی پاکی و ناپاکی، حلال و حرام، نماز و روزے کے احکام تک بھی معلوم نہیں ہیں۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عنوان پر پوری توجہ کے ساتھ کام کرے۔ حصول ِعلم کا جذبہ لوگوں میں بیدار کرے تاکہ لوگ بالخصوص خواتین بنیادی ضروریاتِ دین کو جان لیں، جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ25۔ (علم طلب کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔) لہذا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے کہ وہ حصولِ علم کے لئے اپنے آپ کو تیار کرے۔ یہی جذبہ ان لوگوں میں بیدار کرنا دراصل ایک داعیہ کی ذمہ داری ہے۔
۴۔ امت سے سستی و کاہلی اور عیش پسندی کا خاتمہ کرنا
اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ جو قوم خود سست اور کاہل ہو جاتی ہے اور عیش پسندی میں مبتلا ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس قوم کے حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں کرتے، بلکہ انسان کو سب سے پہلے خود ہمت کرنی پڑتی ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کچھ یوں بیان کیا ہے: لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ26۔ (ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگران (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں، یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کا ٹالنا ممکن نہیں، اور ایسے لوگوں کا خود اس کے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہوسکتا۔) امت مسلمہ کے مسائل میں سے ایک اور بڑا مسئلہ ہماری اجتماعی اور انفرادی سستی، کاہلی اور عیش پرستی بھی ہے، لہذا ایک داعی یا داعیہ کو اپنے دعوت کے اہداف میں یہ بھی شامل کرنا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو دوبارہ سے فکری و جسمانی طور پر بیدار کریں کیونکہ حد سے زیادہ جسمانی عیش و آرام بھی درحقیقت سستی و کاہلی کا سبب بن جاتے ہیں۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ بوڑھے تو بوڑھے، جوان بھی سستی و کاہلی کی بدولت جسمانی قوت و طاقت بہت حد تک کھو چکے ہیں اور لغویات نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جوانوں میں دوبارہ سے جوش و جذبہ اور ایک تحریک پیدا کی جائے اور انہیں یہ سمجھایا جائے کہ بہترین اور طاقتور جسم ہی ایک طاقتور دماغ کو پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ رسولﷺ نے فرمایا: الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَلَا تَعْجِزْ فَإِنْ غَلَبَكَ أَمْرٌ فَقُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ وَإِيَّاكَ وَاللَّوْ فَإِنَّ اللَّوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ27۔ (کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے۔ اور سب میں خیر موجود ہے۔ جو چیز تجھے نفع دے سکتی ہے ا سکی (کوشش اور) حرص کر اور عاجز نہ بن۔ اگر تجھ پر (تیری مرضی کے خلاف) کوئی چیز غالب آجائے تو کہہ: یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اس نے جو چاہا کیا۔ (لفظ لَوْ) ’’اگر‘‘ سے بچ کیونکہ ’’اگر‘‘ سے شیطان کا کام شروع ہو جاتا ہے۔) فطری بات ہے کہ ایک طاقتور مومن اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو نیک کاموں کی انجام دہی، نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کی راہ روکنے میں خرچ کرتا ہے جب کہ کمزور آدمی بہت سے ایسے کام نہیں کر سکتا جو طاقت ور آدمی انجام دے سکتا ہے۔ اس لحاظ سے طاقت ور مومن کمزور سے بہتر ہے۔ لہذا یہ ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے کہ وہ اس انفرادی اور اجتماعی کمزوری کا احساس کریں اور اس کی اصلاح کے لئے کوشش کریں۔
۵۔ امت مسلمہ سے احساس کمتری کو ختم کرنا
آج المیہ یہ ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ غیروں کی ٹیکنالوجی اور قوت اور طاقت دیکھ کر ان سے خائف ہو چکی ہے اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو انہوں نے غیروں کا غلام تسلیم کر لیا ہے، ہر بات میں غیروں کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں اور صورتحال ایسی ہے کہ امت نے انہی کو اپنے لئے آئیڈیل تسلیم کر لیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ کیفیت صرف عوام الناس ہی کی نہیں بلکہ بڑے بڑے حکمران بھی اپنی تقریروں میں یہی فلسفہ پیش کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے تو امت مسلمہ کو ’’بہترین امت‘‘ قرار دیا تھا۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے کہ وہ امت مسلمہ میں پائی جانے والی اس محرومی کو دور کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان باور کروائیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہترین امت قرار دیا ہے، لہذا تمہیں غیروں کے طریقوں پر چلنے کی بجائے دین اسلام ہی کو اپنا آئیڈیل بنانا ہے اور اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹنی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ28۔ (مسلمانو! تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔) ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے کہ وہ امت کو باور کروائے کہ غیروں سے مرعوب ہو کر ان کی پیروی کرنے کی بجائے دین اسلام کی پیروی کرنے ہی میں ایک مسلمان کی بقا ہے۔ لہذا امت کے اندر خود اعتمادی اور دین اسلام کے ساتھ ایسی لگن پیدا کرنا کہ وہ اسلام ہی کو اپنا آئیڈیل تسلیم کریں اور اپنے جملہ معاملات میں اسی سے رہنمائی طلب کریں، یہ سب ایک داعی کی ذمہ داری ہے۔
۶۔ جدید ٹیکنالوجی پر سے غیروں کے غلبے کو ختم کرنے کی سعی کرنا
ایک داعی کا فرض ہے کہ وہ امت کو یہ نظریہ اچھی طرح سے سمجھائے کہ اسلام صرف مسجد اور مدرسے کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی کرنے والا دین ہے۔ آج لادین طبقہ یہی وسوسہ مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آخر اسلام نے کونسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے؟ آج کی جدید دنیا میں اسلام نے لوگوں کی بقا کے لئے کیا خدمات سرانجام دی ہیں؟ یہ طبقہ لوگوں کو کفار کی طرف اس انداز میں متوجہ کرتا ہے کہ سادہ لوگ مسلمان کفار سے ذہنی و فکری طور پر مرعوب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی وہ دین اور مذہب ہے جس نے ٹیکنالوجی کی ترویج پر دراصل زور دیا ہے۔ ہم اگر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بڑے بڑے سائنسدان، علمِ کیمیاء کے ماہرین، ریاضی دان، حکماء اور علماء کے نام ملتے ہیں۔ مثلاً امام محمد بن زکریا الرازی، ابونصر فارابی، جابر بن حیان، حکیم یحییٰ منصور، عباس بن سعید الجوہری، خالدبن عبدالملک المروزی، محمد بن موسیٰ خوارزمی، ابن خلدون، ابن جوزی، ابن تیمیہ، امام جلال الدین السیوطی، احمد بن موسیٰ شاکر، ابوعباس احمد بن کثیر فرغانی، ابو جعفر محمد بن موسیٰ شاکر، حجاج بن یوسف کے کارناموں سے دنیا واقف ہے۔ دنیا نے جتنی بھی ترقی کی، اس کی بنیاد ڈالنے والے یہی مسلمان رہنما تھے، البتہ المیہ یہ ہے کہ آج کے مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ یہی وہ بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے آج کا مسلمان بجائے اس کے کہ وہ جدید تعلیم حاصل کر کے غیروں کے مقابلے میں اپنی خدمات دنیا کو پیش کرے، وہ اپنے ماضی کو بھلا کر غیروں سے امید لگائے بیٹھا ہے اور انہیں کو اپنا پیشوا تسلیم کر چکا ہے۔ اس کے دل میں یہ جذبہ دوبارہ سے بیدار کرنا کہ اس کو دنیا کی امامت کے لئے بھیجا گیا ہے، یہ ایک داعی اور داعیہ کا فرض ہے۔
خلاصہ بحث
اگر ہم ماڈرن اور جدید ترقی یافتہ دور کی بات کریں تو وقت کے تقاضے بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معیار زندگی بھی بدل گئے ہیں، اب لوگ سوشل میڈیا کی زندگی میں رہتے ہیں لہذا داعیات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس علمی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے جدید دور کے تقاضوں سے اچھی طرح باخبر ہوں اور ان تمام وسائل اور ذرائع کو اچھی طرح جان لیں جو اس دعوت کے میدان میں ان کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ اماں عائشہ صدیقہؓ کے پاس علمی مسائل پوچھنے کے لئے آتے تھے۔ اسی طرح دیگر صحابیاتؓ نے بھی دعوتی میدان میں شاندار خدمات انجام دیں۔ عصرِ حاضر میں پاکستان کی خواتین اور بالخصوص داعیات کے لئے دعوت کے میدان میں صحابیاتؓ کی زندگی عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ دعوت کے مختلف وسائل اور ذرائع استعمال کر کے داعیات اپنی دعوت کو مؤثر بنا سکتی ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ چند مزید اہداف کا تعین کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک داعیہ دعوت کے میدان میں کما حقہ نتائج حاصل کر سکے۔
تجاویز و سفارشات
۱۔ ضروری ہے کہ صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت و کردار اور ان کی زندگیوں کے دعوتی پہلوؤں جیسے عنوانات پر بھی مقالہ جات لکھے جائیں اور ان کی شخصیت و کردار کو بھی عوام الناس سے متعارف کروایا جائے تاکہ آج کے مسلمان اپنے اسلاف کو جان سکیں اور ہدایت اور رہنمائی کے لئے غیروں کے دروازے پر بھیک نہ مانگنی پڑے۔
۲۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ عصر حاضر کے اسلامی معاشرے میں اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں خواتین کی دینی تربیت کا باقاعدہ کوئی دینی نظام موجود نہیں ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب کہ خواتین شادی شدہ ہوں اور گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ دینِ حق کو سیکھنا چاہتی ہوں۔ ایسے معاشرے میں ضروری ہے کہ خواتین کو یہ بات باور کروائی جائے کہ وہ کم از کم صحابیاتؓ کی زندگیوں کا مطالعہ کریں، ان کی سیرت و کردار کو اپنانے کی کوشش کریں اور پھر توقع کی جا سکتی ہے کہ یہی خواتین آگے چل کر داعیات بھی بن سکتی ہیں اور دیگر خواتین کو بھی دعوت دین کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔