دستور میں حکومتی ترامیم: ملی مجلسِ شرعی کا موقف

ڈاکٹر محمد امین


پریس ریلیز

ملّی مجلسِ شرعی پاکستان جو مختلف دینی مسالک کے علماء کرام کا ایک علمی پلیٹ فارم ہے، اس کے صدر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے جو اگلے چند دن میں حکومت کی مجوزہ دستوری ترامیم کا جائزہ لے گی اور اس امر پر بھی غور کرے گی کہ اسلامی نقطۂ نظر سے کون سی دستوری ترامیم دینی قوتوں کو پیش نظر رکھنی چاہئیں:

۱۔ مولانا سردار محمد خان لغاری

۲۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

۳۔ مولانا غضنفر عزیز

۴۔ حافظ ڈاکٹر حسن مدنی

۵۔ ڈاکٹر محمد امین (سیکرٹری)

۲۰ ستمبر ۲۰۲۴ء

روداد اجلاس

روداد اجلاس کمیٹی برائے دستوری ترامیم منعقدہ ۲۲ ستمبر ۲۰۲۴ء بمقام ۱۷۸ نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن،  لاہور۔

اجلاس میں مندرجہ ذیل احباب نے شرکت کی: 

ا۔ حافظ ڈاکٹر حسن مدنی 

۲۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

۳۔ مولانا غضنفر عزیز

۴۔ حافظ محمد عمران طحاوی 

۵۔ ڈاکٹر محمد امین (سیکرٹری)

مولانا سردار محمد خان لغاری بوجوہ تشریف نہ لا سکے جبکہ  عبد الرحمٰن ایڈوکیٹ صاحب اسلام آباد سے آن لائن شرکت کی۔ 

موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ جو خود دھاندلی کی پیداوار ہے اور اس کی آئینی حیثیت مشکوک ہے، وہ مجوزہ ۲۶ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کئی ایسی دستوری ترامیم کرنی چاہ رہی ہے جس کے بارے میں شرکاء کی متفقہ رائے یہ تھی کہ حکومت یہ ترامیم اپنی سیاسی اور وقتی ضرورت کے تحت کر رہی ہے۔ اس کے پیش نظر عدالتی اصلاحات نہیں بلکہ عدلیہ میں اپنے ہم خیال افراد کو توسیع دینا اور اختلاف کرنے والے ججوں سے نمٹنا ہے۔ سپریم کورٹ کو غیر مؤثر بنانے کے لیے اس کے اوپر ایک آئینی عدالت بنانے کا منصوبہ ہے جس کے ججز کی تقرری حکومت (یعنی وزیراعظم اور صدر) کرے گی۔ ہائی کورٹ کے ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ کیا جا سکے گا، ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی کو با اختیار بنایا جائے گا وغیرہ۔ دیگر ترامیم میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع، آرمی ایکٹ کو آئین کا حصہ بنانا، سویلینز کا ملٹری ٹرائل وغیرہ سے فوج کو وسیع تر آئینی کردار مل جائے گا۔ نیز پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ کو گنا جانا، چیف الیکشن کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قرارداد سے توسیع وغیرہ ایسے امور ہیں جو حکومت کی وقتی سیاست کی ضرورت ہیں۔ لہٰذا دینی قوتوں کو چاہیے کہ وہ ان آئینی ترامیم کی مخالفت کریں اور ان کی منظوری کو روکنے کی کوشش کریں۔

شرکاء نے اس پر بھی زور دیا کہ جب آئین میں ہر نوع کی ترامیم ہو رہی ہیں تو دینی قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ آئین کے اسلامی کردار کو مؤثر بنانے کے لیے ترامیم پیش کریں۔

شرکاء نے کہا کہ ان کی رائے میں دینی قوتوں کو مندرجہ ذیل آئینی ترامیم پیش کرنی چاہیے:

ا۔ دستور کی دفعہ 2A میں یہ اضافہ کیا جائے کہ دستور کی تشریح و تطبیق قرارداد مقاصد کے متن کی روشنی میں کی جائے گی اور دستور اور اسلامی تعلیمات میں کسی ممکنہ تعارض کی صورت میں اسلامی تعلیمات پر ترجیحاً‌ عمل کیا جائے گا۔ (جیسا کہ نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء کی دفعہ 4 میں ہے)۔

۲۔ دفعہ 8 کے شروع میں یہ اضافہ کر دیا جائے کہ بنیادی حقوق کا تعین قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہوگا۔

۳۔ دفعہ 203D2D کو تبدیل کر دیا جائے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سپریم کورٹ اپیلیٹ بینچ میں اپیل کے باوجود نافذ العمل ہوں گے، الا یہ کہ سپریم کورٹ اپیلیٹ بنچ کسی معاملے میں stay کا حکم دے۔ نیز وفاقی شرعی عدالت میں علماء ججز کی تعداد کو بڑھایا جائے اور اس عدالت کے ججز کے حقوق و اختیارات وہی ہونے چاہئیں جو دوسری ہائی کورٹس کے ہیں۔ 

۴۔ سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ کو ریگولر سماعت کرنی چاہیے اور جو کیس اس کے پاس آئے، تین ماہ کے اندر اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس بیچ میں جو اہم امور عرصے سے زیر التوا ہیں مثلاً سود کا معاملہ، ٹرانس جینڈر ایکٹ، وقف املاک ایکٹ، دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ڈگریوں کی منظوری کا معاملہ وغیرہ، انہیں ترجیحاً‌ جلد سن کر ان پر فیصلہ کیا جائے۔

۵۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کو مؤثر بنانے کے لیے دستور میں ترمیم کی جائے۔ کونسل کی رپورٹس کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں لازماً‌ زیر بحث لایا جائے، اور اگر دو سال کے اندر اس کے مطابق قانون سازی نہ ہو تو سپیکر اور وزیر قانون کو قابل مواخذہ ٹھہرایا جائے اور سزا دی جائے۔ نیز ریاست کے مختلف ادارے جو ذیلی قوانین بناتے رہے ہیں، ان کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ نفاذ سے پہلے اس کی منظوری اسلامی نظریاتی کونسل سے لیں تاکہ ان میں کوئی پہلو خلافِ اسلام اور خلافِ عدل نہ ہو۔ 

۶۔ صدر مملکت کو سزائے موت معاف کرنے کا حکم (دفعہ 245) غیر شرعی ہے، اس دفعہ کو حذف کر دیا جائے۔

۷۔ دستور کی دفعہ 37 میں سماجی برائیوں کے خاتمے کا ذکر ہے لیکن ان کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کا تعین کون اور کیسے کرے گا۔ لہٰذا یہاں ’’بمطابق قرآن و سنت‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کر دیا جائے۔

پریس ریلیز

ملّی مجلسِ شرعی جو سارے دینی مکاتبِ فکر کا علمی پلیٹ فارم ہے، اس کے صدر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے حکومتی دستوری ترامیم پر غور کرنے اور دستور میں اسلامی ترامیم تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں ڈاکٹر محمد امین، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا غضنفر عزیز اور حافظ محمد عمران طحاوی شامل تھے۔

۲۲ ستمبر ۲۰۲۴ء کو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس نے حکومتی ترامیم کے بارے میں یہ رائے دی کہ حکومت کے پیش نظر اس کی سیاسی اور وقتی ضرورتیں ہیں اور عدلیہ کے ان ججوں کی حمایت و توسیع ہے جو اس کے حامی ہیں اور ان سے نمٹنا مقصود ہے جو حکومتی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان تجاویز سے وفاق کو اور سیاسی و عدالتی نظام کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے لہٰذا دینی قوتوں کو ان ترامیم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔

کمیٹی نے تجویز کیا کہ دینی قوتوں کو اس موقع پر دستور کے اسلامی پہلو کو مؤثر بنانے کے لیے مزید ترامیم پیش کرنی چاہیے مثلاً یہ کہ قراردادِ مقاصد کو دیگر قوانین پر بالادستی حاصل ہو۔ دستور اور اسلامی تعلیمات میں تعارض کی صورت میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا جائے اور اپیل کو ان کے خلاف stay نہ سمجھا جائے۔ اس کے ججوں کی تعداد بڑھائی جائے اور ان کے حقوق و اختیارات وہی ہوں جو دوسرے ہائی کورٹ ججز کے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے طریق کار وضع کیا جائے، اور عمل نہ کرنے کی صورت میں سپیکر اور وزیر قانون قابلِ مواخذہ اور قابل سزا ہوں۔ سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ کو ریگولر سماعت کرنی چاہیے اور تین ماہ کے اندر فیصلے کرنے چاہئیں۔ سزائے موت کی معافی کا صدارتی اختیار (دفعہ245) ختم کیا جائے۔ بنیادی حقوق (دفعہ8) پر عمل اور سماجی برائیوں کے خاتمے کی (دفعہ37) پر عمل درآمد کو قرآن و سنت کی مطابقت سے مشروط کیا جائے۔

کمیٹی نے تجویز کیا کہ یہ تجاویز مولانا فضل الرحمٰن صاحب اور دوسری دینی جماعتوں کو بھجوائی جائیں اور ان سے درخواست کی جائے کہ وہ حکومت سے گفتگو میں انہیں پیش نظر رکھیں۔


ڈاکٹر محمد امین

سیکرٹری دستوری ترامیم کمیٹی

۲۳ ستمبر ۲۰۲۴ء

پاکستان ۔ قومی و ملی مسائل

اخبار و آثار

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۰

قراردادِ مقاصد کا پس منظر اور پیش منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دستور میں حکومتی ترامیم: ملی مجلسِ شرعی کا موقف
ڈاکٹر محمد امین

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی

انسانیت کے بنیادی اخلاق اربعہ (۱)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مسئلہ جبر و قدر: متکلمین کا طریقہ بحث
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

’’اقوالِ محمودؒ‘‘ سے ’’نکہتِ گُل‘‘
مولانا فضل الرحمٰن

علما کیا خاموش ہو جائیں؟
خورشید احمد ندیم

مدارس دینیہ میں تدریسِ فقہ: چند غور طلب پہلو
ڈاکٹر عبد الحئی ابڑو

اہلِ کتاب خواتین سے نکاح: جواز و عدم جواز کی بحث
مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

جارج برنارڈشا کی پیشِین گوئی
حامد میر

سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، اردو کے پہلے ادیب و مصنّف
طفیل احمد مصباحی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۲)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

عہد نبوی میں رقیہ اور جلدی امراض کی ماہر خاتون
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

افغانستان میں طالبان حکومت کے تین سال
عبد الباسط خان

سائنس یا الحاد؟
ہلال خان ناصر

ختمِ نبوت کانفرنس مینار پاکستان پر مبارکباد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

A Glimpse of Human Rights in Islam
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter