اسلامی علوم میں فقہِ اسلامی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ فقہ تمام اسلامی علوم کی جامع ہے۔ تفسیر، حدیث، تصوف، بلاغت اور لغت و ادب سمیت تمام علوم میں ایک خاص حد تک درک پیدا کیے بغیر فقہ کی جزئیات اور باریکیوں سے واقفیت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں خالصتاً مادی نقطۂ نظر سے بھی ایسا جامع، انسانی ضرورت سے ہم آہنگ، فطرتِ انسانی کا آئینہ دار، اور اپنے وقت کے ہی نہیں بلکہ مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات کے حل کی صلاحیت سے مالامال نہیں جیسا کہ یہ نظامِ قانون ہے۔ موجودہ دور میں ایجادات کی کثرت، ذرائع مواصلات، برق رفتاری، سیاسی و اقتصادی نظام میں دور رس تبدیلی، اور عالمگیریت کی وجہ سے نت نئے فقہی قضایا اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کے حل کے لیے ایسے علماء کی ضرورت ہے جو ایک طرف فقہی ذخیرے پر گہری نظر رکھتے ہوں اور دوسری طرف اپنے زمانے کی تبدیلیوں سے بھی آگاہ ہوں۔ ایسے افراد کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ فقہ و اصول فقہ کی تدریس کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جائے۔
فقہ و اصولِ فقہ میں جو کتابیں ہمارے مدارس کے نصاب میں داخل ہیں، یقیناً بڑی اہم اور سلف کی بہترین کاوشوں کا نتیجہ ہیں؛ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان کتابوں کے درس کے بعد طلبہ میں یہ استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے احوال پر اس کو منطبق کر سکیں۔ کیا استحسان کی بحث پڑھنے والا طالب علم اس قابل ہو جاتا ہے کہ موجودہ دور کے ان مسائل کا ادراک کر سکے جو استحسان پر مبنی ہیں؟ بیوع کے مباحث پڑھنے والا طالب علم ڈیبٹ کارڈ، اے ٹی ایم، آن لائن ٹرانزیکشن جیسے پیش آمدہ مسائل کا حکم جان سکتا ہے؟ صرف و نحو کے اصولوں کو عبارت پر منطبق کرنے کی صلاحیت رکھنے والا طالب علمِ فقہ کے مسائل میں ظاہریہ کا سا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے قدیم فقہی جزئیات، جن میں سے بیشتر استقرا اور مصنف کے ذاتی یا معاشرتی مشاہدے و تجربے پر مبنی ہیں، کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور تمام فقہی اصولوں کو بھول جاتا ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فقہ کے نصاب میں کمی و خامی کہاں ہے جس کی وجہ سے اس میدان میں طلبہ کی صلاحیت کار زنگ آلود ہی رہ جاتی ہے۔
موجودہ نصاب پر کئی دہائیاں قبل مولانا یوسف بنوریؒ کا یہ تبصرہ آج بھی بہت وقیع محسوس ہوتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’مدارسِ دینیہ عربیہ میں اس وقت جو نصابِ تعلیم رائج ہے، حدیث و فقہ کی چند کتابوں کو مستثنیٰ کرنے کے بعد زیادہ تر ساتویں صدی ہجری اور اس کے بعد کے قرون کی یادگار ہے جہاں سے صحیح معنے میں انحطاط کا دور شروع ہو چکا تھا۔ قدمائے امت کی وہ تالیفات جن میں علم کی روح موجود تھی، عبارت سلیس و شگفتہ، مسائل و قواعد واضح، جن میں نہ عبارت تعقیدات تھیں نہ دور از کار ابحاث۔ جن کے پڑھنے سے صحیح معنے میں دل و دماغ متاثر ہو سکتے تھے۔ نہ وقت ضائع ہوتا تھا، نہ دماغ پر بوجھ کا خطرہ ہوتا تھا، ان کی جگہ ایسی کتابیں تصنیف ہوئیں جن میں سب سے زیادہ کمال اختصار نویسی کو سمجھا گیا، زیادہ زور لفظی بحثوں پر دیا گیا، لفظی موشگافیاں شروع ہوئیں، یوں اگر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ کاغذ تو کم خرچ کیا گیا، لیکن وقت و دماغ کو اس کے حل پر زیادہ صَرف گیا گیا، بڑا کمال یہی سمجھا گیا کہ عبارت ایسی دقیق و غامض ہو جس کے لیے شرح و حاشیہ کی ضرورت ہو۔ کئی کئی توجہات کے بغیر حل نہ ہو، آخر یہ علمی عیاشی نہیں تو اور کیا ہے۔ میرے ناقص خیال میں یہ علم کا سب سے بڑا فتنہ تھا جس سے علوم اور اسلامی معارف کو بڑا نقصان پہنچا۔ بطور مثال اسلامی علوم میں اصولِ فقہ کو لیجیے جو علومِ دین اور علومِ اجتہاد میں ایک لطیف ترین اور اہم ترین فن ہے، جو قرآن و سنت سے نئے نئے استنباطات کے لیے سب سے اہم راستہ تھا جس کی باقاعدہ تدوین کا فخر دولتِ عباسیہ کے سب سے پہلے قاضی القضاۃ امام ابو یوسفؒ کو حاصل ہے، اور امت میں اس کے بعد سب سے پہلی کتاب امام محمد بن ادریس الشافعیؒ کی کتاب الرسالہ ہے جو عرصہ ہوا کہ مصر میں کتاب الام کے ساتھ چھپ چکی تھی اور اب کچھ عرصہ ہوا بہت آب و تاب سے دوبارہ قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ اسی فن میں امام ابوبکر رازی جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) نے کتاب الفصول فی الاصول لکھی جس کا ایک عمدہ نسخہ دارالکتب المصریہ قاہرہ میں موجود ہے اور جس کی نقل راقم الحروف کے توسط سے مجلس علمی ڈابھیل، حال کراچی کے لیے ہندوستان و پاکستان آئی۔ امام فخر الاسلام بزدوی نے کتاب الاصول لکھی جس کی عمدہ ترین شرح عبدالعزیز بخاری کی ہے جو ترکی کے سابق دارالخلافہ سے دو دفعہ شائع ہوئی اور جس کی محیر العقول عظیم ترین شرح امیر کاتب عمید الدین اتقانی کی الشامل دس جلدوں میں دارالکتب المصریہ قاہرہ میں موجود ہے اور اس کا ایک نسخہ استنبول کے کتب خانہ فیض اللہ آفندی میں ہے لیکن افسوس کہ دونوں جگہ ابتدائی دو ڈھائی جزو کا نقص ہے۔ اس کی نقل بھی راقم الحروف کے توسط سے مجلس علمی میں آچکی ہے۔ امام شمس الائمہ سرخسی نے کتاب الاصول لکھی جس کے نسخے ترکی و مصر میں موجود ہیں۔ یہ اور اس کے علاوہ اس فن میں متقدمین کی عمدہ و نافع کتابیں ہیں۔ امام حجۃ الاسلام غزالی کی الاصول اس فن کی عمدہ کتاب ہے اور اس کے علاوہ اس فن میں امام ابو زید و بوسی کی کتاب "تقویم الادلۃ" بے نظیر ہے۔
اب خیال فرمائیے کہ ایسی نادرۂ روزگار کتابوں کی جگہ امام ابن ہمام کی تحریر الاصول اور ابن حاجب کی مختصر الاصول اور بیضاوی کی منہاج الاصول یا ابوالبرکات نسفی کی منار الاصول یا صدر الشریعۃ کی تنقیح الاصول نے لی۔ اگر تحریر الاصول کی شرح التحبیر والتقریر ابن امیر الحجاج کی نہ ہو یا التیسیر ابن امیر بخاری کی نہ ہو اور قاضی بیضاوی کی منہاج کی شرح الاسنوی کی نہ ہو تو یہ چیستانیں امت کے کیا کام آسکتی ہیں؟ یہ مانا کہ ان میں کچھ دقیق و لطیف ان کے مختارات یا خصوصی ابحاث بھی ہیں، لیکن دوسری طرف مہمات جس تعبیر میں ادا ہوئی ہیں وہ کوئی علمی روح پیدا کرنے کے لیے مفید نہیں ہوسکتیں۔"1
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
"اس ماحول میں اگر ہم اب بھی ان غیر اہم وسائل پر جمے رہیں گے تو علوم اسلامیہ سے توجہات ہٹ جائیں گی اور ہمارا یہ طرز عمل ہمارے اکابر و اسلاف کی اس تراث فاخر اور اس علمی ثروت و سرمائے کو فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ یہ درحقیقت علم کی خیر خواہی نہیں بلکہ نادان دوست کا سا طرز عمل ہوگا، کیا فقہ اسلامی میں کنز الدقائق، وقایہ، نقایہ اور شرح وقایہ کے بہترین بدل اسلاف کی کتابوں میں موجود نہیں؟ کیا جامع صغیر، جامع کبیر وغیرہ براہ راست مدون فقہ امام محمد بن الحسن الشیبانی کی کتابیں ہر حیثیت سے جامع نہیں؟ ان میں جو علم اور برکت ہوگی وہ ان متاخرین کی کتابوں میں کہاں سے ملے گی۔ میرے ناقص خیال میں کتب فقہ میں نورالایضاح، قدوری اور ہدایہ کے علاوہ بقیہ سب قابل تبدیلی ہیں۔"
یہ صرف مولانا بنوری کا ہی درد دل نہیں بلکہ ان سے بھی نصف صدی قبل مولانا اشرف علی تھانوی بھی یہ ہی رونا رو چکے ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی مولانا تھانوی کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ میری بہت پرانی رائے ہے اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا۔ وہ رائے یہ ہے کہ تعزیراتِ ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہییں۔ یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔"2
مدارس کا موجودہ نصاب فقہ
گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مدارس اور و فقہائے مدارس کے نظام میں فقہ کا جو نصاب مقرر ہے، وہ پیش کیا جائے۔
اس وقت ملک میں مدارس کے پانچ بڑے بورڈ یا وفاق و تنظیمات پائی جاتی ہیں جن کے ماتحت ملک کے طول و عرض میں ہزاروں مدارس چل رہے ہیں۔ ان وفاقوں میں تدریس فقہ کا نصاب کچھ یوں ہے:
وفاق المدارس العربیہ پاکستان (ملتان) کے زیر انتظام مدارس میں رائج فقہ کا نصاب درج ذیل ہے:3
ثانویہ عامہ سال اول: ۔
ثانویہ عامہ سال دوم: مختصر القدوری
ثانویہ خاصہ سال اول: کنزالدقائق (علاوہ کتاب الفرائض)
ثانویہ خاصہ سال دوم : شرح وقایہ اخیرین
عالیہ سال اول: ہدایہ (جلد اول)
عالیہ سال دوم: ہدایہ (جلد دوم)
عالمیہ سال اول: ہدایہ (سوم، چہارم)
عالمیہ سال دوم: ۔
تنظیم المدارس کے مدارس میں ترتیب کے معمولی فرق کے ساتھ یہی نصاب مروج ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:4
ثانویہ عامہ سال اول: قانون شریعت (جلد اول)
ثانویہ عامہ سال دوم: نورالایضاح
ثانویہ خاصہ سال اول: مختصر القدوری
ثانویہ خاصہ سال دوم : ہدایہ (ربع اول)
عالیہ سال اول: ہدایہ (ربع ثانی) ماسوا نکاح الرقیق و اہل الشرک، کتاب العتاق، کتاب السیر، کتاب الاباق
عالیہ سال دوم: ہدایہ (ربع ثالث) منتخب ابواب: کتاب البیوع، ادب القاضی، المضاربہ، الھبۃ، الاجارات، الغصب
عالمیہ سال اول: ہدایہ (ربع آخر) منتخب ابواب: کتاب الشفعۃ، کتاب الذبائح والاضحیۃ، کتاب الکراھیۃ، کتاب الاشربۃ، کتاب الرھن، کتاب الجنایات، کتاب الوصایا
عالمیہ سال دوم: ۔
اکثر حنفی مدارس میں درجہ تخصص فی الفقہ میں درج ذیل کتب رائج ہیں:
رسم المفتی ردالمحتار شرح الدرالمختار
سلفی مدارس کا نصاب فقہ
مالا بد منہ قدوری شرح وقایہ
الہدایہ (اولین) کنزالدقائق الروضۃ الندیۃ
بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد فقہ السنۃ
کتاب وار جائزہ
فقہ کی کتابوں میں: مالا بدمنہ، نور الایضاح، قدوری، کنز الدقائق، شرح وقایۃ اور ہدایہ اول کے ابواب عموماً عبادات سے متعلق ہیں، کچھ مدارس میں قدوری کے بھی شروع کے عبادات والے ابواب ہی پڑھائے جاتے ہیں، مجموعی طور پر عبادات کے بیشتر ابواب کے علاوہ مناکحات اور معمولی سا حصہ معاملات کا پڑھایا جاتا ہے، سال کے اختتام پر فقہی نصاب کی جانچ کی جائے تو بہت حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے۔
اس میں نئے ناتجربہ کار اساتذہ عربی کے ابتدائی درجات میں بھی فقہی دقیق بحثیں اور اختلافات کی بھرمار سے درس کو بوجھل اور کم عمر طلبۂ عزیز کے کچے دماغوں کو وحشت زدہ کر دیتے ہیں، نفسِ مسئلہ کی وضاحت کرنے کی بجائے شروحات میں پڑھا ہوا ہی بیان کر دیا جاتا ہے۔
نورالایضاح
یہ ابوالبرکات حسن بن عمار الشرنبلالی کی تصنیف ہے۔ اس میں ارکان اربعہ یعنی عبادات سے بحث کی گئی۔ اکثر مدارس میں درجہ اعدادیہ یا اولیٰ میں پڑھائی جاتی ہے۔ کتاب کی ابتدا طہارت کے مسائل سے کی گئی ہے۔ طرز نگارش سادہ اور اسلوب سہل ہے۔ یہ کتاب مبتدی طلبہ کے لیے بہت مفید ہوتی اگر اس میں مصنف سے سنن و آداب اور مسائل کے نقل کرنے میں جابجا غلطی نہ ہوتی۔مبتدی طلبہ کے ذہن کچے اور شعور کی دہلیز کو ابھی چھو ہی رہے ہوتے ہیں اس لیے ایسی کوئی بھی کتاب بطور نصاب پڑھانا مفید نہیں ہو سکتا جس کی استنادی حیثیت قابل اطمینان نہ ہو۔ چھوٹے درجوں میں پڑھانے والے اساتذہ بھی عام طور پر نوخیز ہوتے ہیں (یہ موضوع الگ سے توجہ کا متقاضی ہے) اور یہ تحقیق کیے بغیر کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے، سب کچھ پڑھا دیتے ہیں جو کہ عبادات کے باب میں خاصی خطرناک چیز ہے۔
مختصر القدوری
یہ ابوالحسن احمد بن محمد قدوری بغدادی (۳۶۳ھ ۔ ۴۲۸ھ) کی غیر معمولی شہرت کی حامل کتاب ہے جو فقہ حنفی کے متفق علیہ متن کی حیثیت رکھتی ہے اور متأخرین حنفیہ نے جن چار متون فقہ کو سب سے زیادہ مستند قرار دیا ہے ان میں سے ایک ہے۔ اس میں ۶۱ کتب اور ۶۲ ابواب ہیں اور بیسیوں کتابوں سے تقریباً بارہ ہزار ضروری مسائل کا انتخاب ہے۔ فقہ حنفی کی کتب میں اس کتاب کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ بعض شارحین نے اس کا خاص امتیاز یہ لکھا ہے کہ اس کتاب کا ہر مسئلہ کسی آیت، حدیث، قول صحابی یا فتویٰ تابعی پر مبنی ہے، بہت کم مسئلے ہوں گے جو قیاس کر کے لکھے گئے ہوں اور وہ بھی اصول کے تحت مستخرج ہیں۔ صاحب ہدایہ نے شرح کے لیے جو متن (بدایۃ المبتدی) تیار کیا اس کے لیے اسی کتاب کو منتخب کیا اور اسی کو بنیاد بنا کر اس کی عظیم الشان شرح لکھی جس کو پوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہے۔
کنز الدقائق
یہ ابوالبرکات حافظ الدین محمود نسفی (متوفیٰ ۷۱۰ھ) کی مشہور تالیف ہے اور فقہ حنفی کی اہم اور معتبر متون میں شامل ہے، اس متن میں مصنف نے اپنی کتاب الوافی کی تلخیص کی ہے، کتاب میں اختصار و ایجاز اغلاق کی حد تک ہے۔ نسفیؒ نے اپنی اس مختصر میں دو باتوں کا خاص اہتمام کیا ہے: اول یہ کہ اس میں بالالتزام دینی مسائل ذکر کیے ہیں جو ظاہر الروایت ہیں۔ دوم یہ کہ اس میں زیادہ تر ائمہ ثلاثہ کے وہی اقوال لیے ہیں جو مفتیٰ بہ ہیں لیکن کچھ مسائل غیر ظاہر الروایت اور غیر مفتی بہ بھی ہیں۔ اہل علم نے اس کتاب کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ ابن نجیم کی البحر الرائق، زیلعی کی تبیین الحقائق اور عمر بن نجیم کی النہر الفائق اس کی اعلیٰ درجہ کی شرحیں ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی مسئلہ اس کا اسلوب بیان ہے جس میں انتہائی اختصار و ایجاز سے کام لیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر یہ احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے کتاب کو مختصر سے مختصر کرنے کی پوری کوشش کی کی ہے اور اگر ان کا بس چلتا تو پوری کتاب کو چند سطور میں سمو دیتے۔ بعض مسائل کو انہوں نے چند لفظوں میں سمونے کی کوشش کی ہے مثلاً کتاب الطہارۃ میں کنویں کے مسائل بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں: "ومسألۃ البئر جحط"۔ جس مسئلے کو انہوں نے آدھی سے بھی کم سطر میں ذکر کیا ہے، فقہ کے طلبہ جانتے ہیں کہ یہ پوری دو تین صفحات کی بحث ہے اور جحط کے تین الفاظ سے تین فقہی مذاہب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت تک سمجھ نہیں آسکتا جب تک تمام فقہی مذاہب کی تفصیلات معلوم نہ کر لی جائیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے اغلاق کی کیا ضرورت ہے؟ عبادات کے ابواب میں طلبہ و اساتذہ ان باریک نقاط کے حل میں سال کا بیشتر حصہ گزار دیتے ہیں اور جب بیوع وغیرہ جیسے اہم موضوعات کی باری آتی ہے تو سال ختم ہو رہا ہوتا ہے اور پھر طلبہ میں مقبول محاورے "آخری سہ ماہی میں استاد کو سمجھ آتی ہے اور نہ ہی طلبہ کو" پر عمل ہوتا ہے اور یہ ابواب طلبہ کے سر کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔
شرح وقایہ
تاج الشریعۃ محمود بن صدر الشریعۃ الاکبر احمد بن جمال الدین عبداللہ محبوبی نے فقہ کا متن "وقایۃ الروایۃ فی مسائل الہدایہ" اپنے پوتے صدر الشریعۃ الاصغر عبید اللہ بن مسعود کے حفظ کرنے کے لیے لکھا اور اس میں ہدایہ کے مسائل کا خلاصہ تیار کیا۔ یہ کتاب بھی متونِ اربعہ میں سے ایک ہے۔ بعد میں پوتے یعنی صدر الشریعہ الاصغر نے ہی اس کتاب کی شرح لکھی جو شرح وقایہ کے نام سے مشہور ہے اور خود ہی وقایہ کا اختصار کیا جو نقایہ اور عمدہ کہلاتا ہے۔ اس کتاب کی استنادی حیثیت ہدایہ، قدوری اور کنز کے درجے کی نہیں اور اسلوب بیان دور از کار تفاصیل اور طوالت کا شکار ہے جس کی وجہ سے کتاب کو ختم کرنا اور سمجھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔
الہدایۃ
یہ ابوالحسن علی بن بکر مرغینانی (۵۱۱ھ ۔ ۵۹۶ھ) کی شہرہ آفاق تالیف ہے، موصوف نے قدوری اور جامع صغیر کو سامنے رکھ کر جامع صغیر کی ترتیب پر بدایۃ المبتدی تصنیف کی، پھر اس کی مبسوط شرح اسی جلدوں میں کفایت المنتہی کے نام سے مرتب کی، پھر خود ہی اس کا اختصار کیا، جس کو ہدایہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب مدارس نظامیہ میں پڑھائی جانے والی فقہ کی حیرت انگیز کتاب ہے، اس میں صاحبِ ہدایہ نے پوری کوشش کی ہے کہ مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کیا جائے، چنانچہ مسئلہ کو ذکر کرنے کے بعد عقل و نقل کے ذریعے حنفیت کی ترجیح ثابت کرتے ہیں۔ اسی لیے قوی دلیل کو اخیر میں ذکر کرتے ہیں تاکہ رد پر مذکور تمام امور کا جواب بھی ہو جائے۔ صاحبِ ہدایہ کی بالغ نظری، تصنیف کے میدان میں ان کی حاکمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مولانا بنوریؒ نے علامہ زیلعی کی نصب الرایہ کے مختصر سے پیش نامہ میں علامہ کشمیریؒ کا قول براہ راست نقل کیا ہے کہ ابن ہمام کی فتح القدیر جیسی کتاب لکھنے کے لیے اگر مجھ سے کہا جائے تو میں کام کر سکتا ہو، لیکن اگر ہدایہ جیسی کتاب لکھنے کا مطالبہ کیا جائے تو ’’ہرگز نہیں‘‘ کے سوا میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔
یہ بلاشبہ پورے فقہی ذخیرہ میں اپنے تقابلی منہج اور استدلال کی قوت کے باعث ایک منفرد حیثیت کی حامل کتاب ہے۔ اگرچہ یہ کتاب صدیوں سے نصاب درس کا حصہ رہتی آئی ہے لیکن طول کلامی کے باعث اب اس کے منتخب ابواب ہی پڑھانے کی سفارش کی جا سکتی ہے، بلکہ مختلف مذاہب فقہ کے تقابلی مطالعہ کے لیے اپنے سہل اسلوب کے باعث بدایۃ المجتہد لابن رشد القرطبی (۵۲۰ھ ۔ ۵۹۵ھ) اس کی زیادہ مستحق ہے کہ اسے ہدایہ پر ترجیح دی جائے۔
الدر المختار
یہ محمد بن علی بن محمد بن علی الحصکفی (۱۰۲۵ھ ۔ ۱۰۸۸ھ) کی لائق افتخار تالیف ہے، جس میں انہوں نے تنویر الابصار کے مغلقات کو اختصار کے ساتھ حل کیا ہے۔ یہ کتاب معتبر و مستند بھی ہے اور جامع و مختصر بھی ۔ بعض مواقع پر اختصار و ایجاز اغلاق کی حد کو پہنچ گیا ہے۔ علامہ محمد امین ابن عابدین (۱۱۹۸ھ ۔ ۱۲۵۲ھ) نے اس کی عظیم الشان شرح لکھی ہے جو حاشیہا بن عابدین، فتاویٰ شامی اور ردالمحتار کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتاب برصغیر میں کافی عرصے سے افتاء کا مدار بھی ہے۔ مدارس سے فقہ میں تخصص کرنے والے طلبہ عام طور پر فتویٰ دیتے ہوئے کسی اور کتاب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ حال ہی میں دمشق سے اس کا ایک محقق نسخہ چھپا ہے جس میں کئی نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں مروج نسخوں میں کئی مقامات پر اغلاط تھیں جن کو درست کر دیا گیا ہے۔
رسم المفتی
ابن عابدین شامی کا مشہور رسالہ ہے اور ہمارے مدارس میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں اپنے موضوع پر اول و آخر کتاب ہے۔ فقہ حنفی کے مطابق فتاوی نویسی کے آداب و اصول اور حدود و شرائط پر یہ کتاب سند کا درجہ رکھتی ہے جس میں علامہ شامی نے حتی الوسع وافر معلومات اور علمائے سابقین کی آرا کو جمع کر دیا ہے۔
تجاویز
تقابلی مطالعہ (فقہ مقارن)
اس وقت موجودہ نصاب فقہ میں جس مواد کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے وہ فقہ کا تقابلی مطالعہ ( فقہ مقارن)، قواعد فقہیہ مقاصد شریعت و استحسان وغیرہ کی باقاعدہ تدریس کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ و علماء بعد بہت سارے امور کو حرام قطعی قرار دے دیتے ہیں حالانکہ وہ دوسرے فقہی مذہب میں عین جائز کام ہوتا ہے۔ نیز فروعی مسائل میں شدت پر مبنی موقف اختیار کرنے کی بھی ایک وجہ ہے۔ قدما کی کتب میں سے درج ذیل کتابوں کو فقہ مقارن میں شمار کیا جا سکتا ہے:
۔ فقہ حنفی میں بدائع الصنائع للکاسانی، ہدایہ للمرغینانی، تبیین الحقائق للزیلعی
۔ فقہ مالکی میں بدایۃ المجتہد لابن رشد
۔ فقہ شافعی میں المجموع شرح المہذب للنووی
۔ فقہ حنبلی میں المغنی لابن قدامہ
۔ فقہ ظاہری میں المحلیٰ لابن حزم اندلسی
۔ فقہ زیدی میں البحر الزخار
قواعد فقہیہ و مقاصد شریعت
فقہ اور افتاء میں جزئیات کے ساتھ ساتھ قواعد شرعیہ اور مقاصد شریعت کی کتابیں بھی رکھی جانی چاہییں، ہر عالم تو مفتی نہیں ہوگا؛ لیکن وہ کچھ قواعد شرعیہ اور مقاصد شریعت سے واقف ہوگا تو اس کی روشنی میں اسلامی قوانین اور احکام شرعیہ پر ہونے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب دے سکتا ہے۔
قواعد کے لیے شیخ احمد زرقا کی شرح القواعد الفقہیہ، جمال الدین عطیہ کی اسلامی شریعت کا عمومی نظریہ اور شیخ مصطفیٰ زرقا کی المدخل الفقہی العام اور مقاصد شریعتِ کے لیے حامد العالم کی المقاصد العامۃ، ریسونی کی نظریۃ المقاصد عند الامام الشاطبی و الامام ابن عاشور، اور محمد طاہر ابن عاشور کی مقاصد الشریعہ وغیرہ کتابیں مفید ہیں۔
افتاء میں اسلام اور جدید معیشت، اسلامی معاشیات (مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ)، اسلام کا اقتصادی نظام (مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی) اور بینکنگ کے نظام وغیرہ کی بنیادی معلوماتی کتابیں پڑھانی چاہییں، مروجہ ملکی قانون سے بھی افتا کے طلبہ کو واقف کرایا جائے، اس کے کچھ ابواب پڑھائے جائیں۔
اسی طرح مدارس کے نصاب میں اصول فقہ کی قدیم کتابوں کے ساتھ ساتھ شیخ ابو زہرہ مصریؒ کی اصول الفقہ یا مصطفیٰ الزرقا کی المدخل الفقہی العام کے منتخبات اور اگر دو سالہ نصاب ہو تو اصولِ قانون میں عبد الرزاق سنہوری کی مصادر الحق کے منتخبات (جو یورپی اور اسلامی اصول قانون کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں اصول سے طلبہ کو واقف کراتی ہے) کو بھی داخل نصاب کیا جائے۔ معاشیات کے لیے مولانا تقی عثمانی کی اسلام اور جدید معیشت و تجارت، اور علی گڑھ سے معاشیات، سیاست اور اصولِ قانون وغیرہ موضوعات پر لکھی ہوئی اردو کی کتابیں بھی بہت مفید ہوں گی۔ افتاء کے طلبہ و اساتذہ اس کو مطالعہ میں رکھیں تو بہت فائدہ ہوگا اور جدید مسائل کی تفہیم میں بہت معاون ثابت ہوں گی۔
عِلَل وحِکَم کی تعلیم
ایک اور چیز جس کی طرف توجہ دینے کی اس وقت ضرورت ہے وہ احکام کی علتوں اور حکمتوں اور ان کے اسرار سے آگہی پیدا کرنا۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی بہت ہے کہ موجودہ دور میں جو مسائل پیش آرہے ہیں اور جو مستقبل میں درپیش ہوں گے، ان کا حل اور قابلِ عمل شرعی متبادل پیش کرنا اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب احکام کی علتوں اور حکمتوں پر نظر ہو۔ یہ معلوم ہو کہ جہاں علت و حکمت کا رشتہ ٹوٹ جائے وہاں حکم کیسے معلوم کرنا ہے۔ گو کہ قدیم و معاصر فقہی لٹریچر میں اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف نہیں کی گئیں لیکن موجودہ دور اس اہم پہلو سے اغماض کی اجازت نہیں دیتا۔ دینی اداروں کے نمائندہ وفاقوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ، امام غزالی کی احیاء علوم الدین، حافظ ابن قیم کی اعلام الموقعین اور عزبن عبد السلام کی قواعد الاحکام کو سامنے رکھ کر نصاب کے لیے ایک دو جلدوں میں کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔
فقہ القرآن والسنۃ / آیات الأحکام اور احادیث الأحکام
گو کہ سات سال تفسیر قرآن بطور سبق مدارس میں پڑھائی جاتی ہے لیکن اس کا دائرہ کار زیادہ تر ترجمے، اسرائیلی روایات اور جلالین و بیضاوی وغیرہ کی عبارتوں کے حل تک ہی محدود رہتا ہے۔ فقہ القرآن پر عام طور پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، جبکہ قرآن جو کہ فقہ کا اصل منبع ہے اس پر فقہی حوالے سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں احکام القرآن جصاص، احکام القرآن قرطبی، امداد الاحکام مولانا ظفر احمد عثمانی کے منتخب ابواب کا مطالعہ کرایا جانا چاہیے تاکہ مسائل کی اصل نوعیت کا ادراک کرنے کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کا ذوق پیدا ہو۔
قواعدِ فقہیہ
تدریسِ فقہ کا ایک پہلو قواعدِ فقہیہ کی تدریس ہے۔ مدارس میں یہ بھی طاقِ نسیاں کی زینت ہے۔ تخصص فی الفقہ کرنے والے طلبہ بھی عام طور پر قواعدِ فقہیہ سے ناواقف ہوتے حالانکہ قواعدِ فقہیہ ہی تمام فقہی تفریعات کی بنیاد ہیں۔ قواعدِ فقہیہ کو نظر انداز کرنے کی ہی وجہ ہے کہ ہمارے مفتیان کرام فقہ کے معاملے میں ظاہریہ والا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ قدیم فقہاء نے اپنے زمانے کے تجربے، عرف اور شخصی مشاہدے و قیاس کی بنیاد پر جو تفریعات ذکر کر دی ہیں موجودہ دور میں بھی عرف اور زمانے کا خیال کیے بغیر ان کو اختیار کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی مجتہد فیہ مسئلے کا حکم قدیم تراث سے معلوم کرتے وقت اس حکم سے متعلقہ قاعدہ فقہیہ کو بھی پیش نظر رکھا جائے تاکہ لوگوں سے تنگی و مشقت اور حرج دور رہو۔ اس سلسلہ میں موجودہ دور کے نامور عرب علماء کے چند وقیع کام سامنے آئے ہیں، ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
فقہ صحابہ
کم از کم ۱۲ کبار فقہائے صحابہ (۱۔۴) خلفائے راشدینؓ، (۵) ابن مسعودؓ (۶) عائشہؓ، (۷) ابوموسیٰ الاشعریؓ، (۸) زید بن ثابتؓ، (۹) جابر بن عبداللہؓ، (۱۰) ابوہریرہؓ، (۱۱) ابن عمرؓ، (۱۲) ابن عباسؓ کی فقہ کا مطالعہ کرایا جائے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ موجودہ دور میں احوالِ شخصیہ (عائلی قوانین) اور معیشت و تجارت کے کچھ احکام ایسے بھی ہیں جن کی نظیر متداول فقہی ذخیرے میں نہیں ملتی، لیکن عام طور پر فقہائے صحابہ میں سے کسی کا قول یا انفرادی رائے ان مسائل میں معتدل نقطۂ نظر اختیار کرنے میں معاون ثابت ہو جاتی ہے۔
خاتمہ
تدریسِ فقہ کے ان چند ایک پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نصاب کی ازسرنو تدوین کی جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ مدارس کے فضلاء سے اکثر علم اور دیگر حضرات شکوے و شکایات ہیں ان کا ازالہ ہو سکے گا۔
دینی مدارس میں فقہ و اصول فقہ کی تدریس: اصلاحات کی ضرورت
دینی مدارس کا نظام بہت سی خوبیوں کا حامل ہے تاہم اسے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرنا ہمارے پیش نظر نہیں، ہم صرف مختصر طور پر فقہ و اصول فقہ کی تدریس کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔
دینی مدارس کا فقہ و اصول فقہ کا موجودہ نصاب جن علمائے کرام نے ابتداءً تجویز کیا تھا غالباً ان کے پیش نظر یہ تھا کہ طلبہ اپنے فقہی ذخیرے سے واقف ہو جائیں، اور چونکہ برصغیر میں مسلمانوں کی کثیر تعداد حنفی تھی، لہٰذا انہوں نے حنفی متون میں سے قدوری اور ہدایہ اور ان کے اصول استنباط کو سمجھنے کے لیے اصول میں نورالانوار اور مسلم الثبوت جیسی کتب شامل کرنے پر اکتفا کیا۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ علماء کرام مساجد میں عام مسلمانوں کو دینی مسائل بتا سکیں، فتاویٰ جاری کر سکیں اور مدارس میں فقہ کی تدریس کے اہل ہوجائیں۔ جب کہ آج حالات بدل چکے ہیں اور مقاصد تدریس کے حوالے سے ہم مندرجہ ذیل تجاویز اہل مدارس کے غور و فکر کے لیے ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
- فقہ میں تقابلی مطالعہ کو رواج دیا جائے اور حنفی فقہ کے ساتھ دوسرے مذاہب کا مطالعہ بھی کرایا جائے۔ اس سے طلبہ کے علم میں وسعت آئے گی، توسع پیدا ہوگا اور مسلک پرستی کا اثر کم ہوگا۔ اس کے لیے پرانی کتابوں میں سے بدایۃ المجتہد اور نئی کتابوں میں سے وہبۃ الزحیلی کی الفقہ الاسلامی وادلتہ کا مطالعہ کرایا جا سکتا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو سے مذاہب کے فقہ کے اساتذہ سے کچھ محاضرات دلوا دیے جائیں۔
- پاکستان کے آئین اور قوانین خصوصاً اسلامی قوانین کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
- مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مسلم ممالک پر انطباق کی وجہ سے اقوام متحدہ کے قوانین (مثلاً بنیادی انسانی حقوق کا ڈکلیریشن) کا مطالعہ بھی کرایا جانا چاہیے۔
- فقہ القرآن والسنۃ کو بھی جزو نصاب ہونا چاہیے اور طلبہ کو اس کی پریکٹس بھی کروائی جانی چاہیے تاکہ انہیں قرآن و سنت سے استنباط کا سلیقہ آجائے۔
- متون رٹنے کی بجائے طلبہ کو ان کے فہم کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس کے لیے کوئی حرج نہیں اگر ابتدائی درجوں میں فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں اردو میں پڑھیں اور آخری سالوں میں جب ان کی عربی بہتر ہو جائے تو پھر عربی مراجع سے بھی استفادہ کر لیں۔
- تقابلی مطالعے اور پاکستانی و بین الاقوامی قوانین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو عربی کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی اتنی مہارت ہو کہ وہ انگریزی عبارتوں کو بسہولت پڑھ اور سمجھ سکیں۔
- عصری علوم کا ضرورت کی حد تک مطالعہ بھی ناگزیر ہے کیونکہ ڈی این اے، بینکنگ، انتقالِ اعضا اور دوسرے بہت سے جدید امور میں علمائے اسلام سے سوالات کیے جاتے ہیں۔
- جن دینی مدارس میں تخصص فی الفقہ کا انتظام ہوتا ہے وہاں بالعموم فتویٰ جاری کرنے کی صلاحیت اور ٹریننگ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے حالانکہ انہیں مذکورہ بالا تجاویز کے مطابق تقابلی مطالعے اور جدید فقہی مسائل کے حل پیش کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے تخصص کی سطح پر طرقِ تحقیق کا ایک پرچہ لازماً ہونا چاہیے تاکہ تخصص کے طلبہ جدید جامعات کے فقہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مساوی سمجھے جا سکیں۔
- اسی طرح اصولِ فقہ کی تدریس کے وقت احناف کے منہجِ استنباط کے ساتھ دوسرے مذاہب کے مناہج استنباط کا تقابلی مطالعہ بھی ضروری ہے۔ دوسرے مذاہب کے وجوہِ استدلال سامنے آنے کے بعد ان کے باطل و گمراہ ہونے کا رجحان یقیناً کمزور پڑے گا اور ذہن میں یہ راسخ ہوگا کہ یہ ایک اجتہادی اور نصوص کی تعبیر و تشریح کا معاملہ ہے۔ ہمارے پاس ہمارے موقف کی دلیل ہے۔ ہم صرف ایک موقف کو بوجوہ ترجیح دے رہے ہیں۔
- ایک فقیہ اور ایک عام عالم میں اور ان کے طریق تربیت میں فرق ہونا چاہیے۔ فقیہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ میں فقہ و استنباط کا ملکہ اور صلاحیت پیدا کی جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کے عمومی مطالعے کا خصوصی ذوق بیدار کیا جائے اور ماضی کے فقہاء اور ان کے کام پر نظر رکھنے کے بعد ان کے سامنے فرضی اور تقدیری امور رکھ کر (جدید جامعات میں case study کی طرز پر) ان سے استنباط کی باقاعدہ مشق کرائی جائے تاکہ ان میں مجتہدانہ شان پیدا ہو جائے۔ آئیڈیل تربیت کا یہ معیار سامنے رکھا جائے تو پھر ہی کچھ ایسے طلبہ سامنے آئیں گے جو آج کے معاشرے اور ریاست کو جدید مسائل اور قانونی شعبے میں رہنمائی مہیا کر سکیں۔
امید ہے دینی مدارس ہماری ان تجاویز پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے تاکہ دینی مدارس میں فقہ و اصول فقہ کی تدریس کا معیار بہتر سے بہتر ہو سکے۔
حواشی
(1) میری علمی ومطالعاتی زندگی ، مولانا عبد القیوم حقانی ، ص 94-96
(2) دینی مدارس نقد و نظر کے آئینے میں ، مولانا زاہد الراشدی بحوالہ الافاضات الیومیہ ، جلد دشسشم، ص 435
(3) http://www.wifaqulmadaris.org/nisab.php
(4) http://tanzeemulmadaris.com/Syllabus.aspx?Path_Id=5