’’اقوالِ محمودؒ‘‘ سے ’’نکہتِ گُل‘‘

مولانا فضل الرحمٰن


بسم اللہ الرحمٰن الرحيم۔ الحمد للہ وكفیٰ والصلوٰۃ والسلام علیٰ عبادہ الذين اصطفیٰ اما بعد۔

میرے والد محترم شیخ الحدیث و التفسیر، مفتی اعظم، قائدِ ملتِ اسلامیہ حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ اپنے عہد کے جامع الصفات والکمالات انسان تھے، وہ محاسن و کمالات کی جملہ خوبیوں سے مزین تھے۔ قدرت نے انہیں صورتاً‌ حسن وجاہت سے نوازا تھا تو سیرتاً‌ ان کو اخلاقِ حمیدہ سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔ 

یہ ایک حقیقت ہے کہ عظیم انسان پیدا ہوتے رہے اور پیدا ہوتے رہیں گے لیکن بعض شخصیات بارگاہِ ایزد تعالیٰ سے اپنے ساتھ ایسی خصوصیات و کمالات لے کر پیدا ہوتی ہیں جن کی تمام حیات مستعار انسانیت کی خدمت اور ان کی فلاح میں گزرتی ہے، وہ اپنے دلوں میں مخلوقِ خدا کا درد اور ملک و ملّت کی خدمت کا مخلصانہ جذبہ لے کر دنیا میں آتی ہیں اور اپنی سیرت و کردار کے ایسے نقوش ثبت کر جاتی ہیں جو رہروانِ منزل کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ 

حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ قرآن و حدیث کے بہترین عالم، بے مثال مدرس، ملّی مفکر، عظیم سیاسی رہنما اور صحیح معنوں میں عالم باعمل تھے۔ قدرت نے ان کو فہم و فراست اور علم و فضل کے ساتھ قوتِ استدلال سے بھی خوب مالا مال فرمایا تھا۔ وہ دلائل کے دھنی تھے۔ وہ ہر بات کو مدلل انداز سے مثالوں کے ذریعے واضح فرماتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک تاریخ، ایک تحریک، ایک ادارہ اور ایک جماعت تھے، وہ جہدِ مسلسل پر یقین رکھتے تھے اور ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ وہ عمل کے انسان تھے۔ وہ اپنے نصب العین کے لئے زندگی بھر لڑتے رہے، ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد متحد تھا۔ ان کے سامنے ہر دنیوی منصب، ذاتی مفاد اور مصلحت نے دم توڑ دیا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے موقف کو سچا سمجھا اور اس پر ڈٹ جانے کو ترجیح دی اور اسی کے پیش نظر ایک صوبہ کی حکمرانی کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا۔ حکمرانوں نے آپ کو بڑے لالچ دیے مگر آپ نے اپنے کردار پر آنچ نہ آنے دی۔ 

برصغیر پاک و ہند کے عظیم خطیب، جدوجہدِ آزادی کے رہنما حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مجلس سے تشریف لے جانے کے بعد حاضرینِ مجلس سے سوالیہ انداز میں فرمایا تھا: ’’جانتے ہو یہ کون ہے؟‘‘ پھر یہی سوال دہرایا اور پھر ازخود فرمایا ’’تم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے، یہ عہدِ گزشتہ کے قافلہ کے ایک فرد تھے جو اِس دور میں آگئے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ایک سومنات فتح کرنے والا محمود (غزنوی) تھا اور ایک یہ محمود ہے، اس سے بھی اللہ تعالیٰ کسی سومنات کو فتح کرنے کا کام لے گا۔‘‘

ایک عہد نے دیکھا اور تاریخ اس کی گواہ ہے کہ شاہ جی کی وہ پیشین گوئی حرف بحرف اس وقت سچی ثابت ہوئی جب منکرین ختم نبوت قادیانیوں کے خلاف ایک صدی سے جاری جدوجہد اس عظیم الشان انسان کے ہاتھوں تکمیل تک پہنچی۔ آپ کی کوششوں، رابطوں اور دلائل کے ذریعہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے فتنۂ قادیانیت کو ہمیشہ کے لئے بحیرہ عرب میں غرق کر دیا تھا اور قادیانیت کو ساری دُنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہنے دیا۔ یہ سعادتِ عظمیٰ قدرت نے آپ کو عطا فرمائی تھی اور آپ اس عمل کو حشر میں اللہ کے ہاں سرخروئی کا باعث قرار دیتے تھے۔ ایسے دیگر کئی مواقع پر جب بھی ملک و قوم نے ان کو پکارا انہوں نے ہمیشہ لبیک کہتے ہوئے اپنی خدمات وقف کر دیں اور ہر بار ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی قیادت نے ان ہی کے سر پر متفقہ طور پر قیادت کا تاج رکھا۔ انہوں نے نوجوان نسل کو اسلامی فکر سے آشنا کیا، علماء کو وقار دیا، مدارس کو تحفظ فراہم کیا، جبکہ دینداروں کو دین کی صحیح سمجھ عطا کی ہے۔

والد محترم حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ نے ستر کی دہائی میں پاکستان میں سرمایا دارانہ نظام اور سوشلزم دونوں کی نفی کی اور انسان کے بنائے ہوئے ان دونوں معاشی نظاموں کو خلافِ اسلام ثابت کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے معاشی نظام کا مکمل خاکہ قوم کے سامنے پیش فرمایا۔ انہوں نے مزدوروں، کسانوں اور دیگر محنت کش طبقات کو یہ تسلی دی کہ تمہارے تمام معاشی مسائل و مشکلات کا حل اسلام کے معاشی نظام میں ہے۔ سرمایہ داروں کے ایجنٹوں نے معاشی لحاظ سے پسماندہ طبقات کو اسلام اور علماء کرام سے متنفر کرنے کی شعوری کوششیں کی تھیں۔ حضرت مفتی صاحب نے ان محنت کاروں کو ایک معاہدہ کی صورت میں قریب کیا، انہیں گلے لگایا اور اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں ان کو شریک کیا اور اس طرح ایک حکمتِ عملی کے تحت ان کو سوشلزم کی جھولی میں گرنے سے بچایا۔

سامراج دشمنی ان کو اپنے اسلاف سے وراثت میں ملی تھی۔ بزرگوں کی اس وراثت کو انہوں نے آگے بڑھایا اور نوجوان نسل میں سامراج دشمنی کی ایسی روح پھونکی کہ سامراج کو اپنا کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی میں ناکام ہونا پڑا۔ 

بارگاہِ ایزد تعالیٰ سے جو دل و دماغ میں لے کر آئے تھے اس کی کئی جہات تھیں۔ وہ ایک بلند پایہ عالمِ دین، بہترین مقرر اور شیخ الحدیث والتفسیر تھے۔ علمِ فقہ میں انہوں نے اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا اور وہ اس کے مزاج شناس بن گئے تھے۔ وہ شریعت و طریقت کے جامع اور ایک عظیم سیاسی رہنما تھے۔ اپنے عہد کے تمام علماء، زعماء اور سیاسی قائدین کی محفلوں میں نہ صرف انہیں ادب واحترام حاصل تھا بلکہ وہ محفل کی جان ہوتے تھے، سب کی نگاہیں ان ہی کی طرف اُٹھتی تھیں، انہوں نے قیادت و سیادت اس انداز کی کہ اس کی نظیر ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نامکمل رہے گی۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے، وہ پاکستان میں واحد دینی اور سیاسی رہنما تھے جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

متعدد مرتبہ بین الاقوامی سطح پر عالمِ اسلام کے علماء نے آپ کی علمیت، فراست اور بصیرت کا اعتراف کیا ہے۔ جدید شرعی مسائل پر آپ نے ہمیشہ اسلام کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ جامعہ الازہر مصر کے زیر اہتمام مختلف اجلاسوں میں خصوصی طور پر آپ کو اظہارِ خیال کی دعوت دی جاتی تھی جہاں دنیا بھر کے علماء شریک ہوتے تھے۔ ان سے جہاں تعارف کے مواقع ملتے تھے ایک دوسرے کے خیالات سے افادہ و استفادہ بھی کرتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب اس وقت کے اہم دینی و سیاسی مسائل کو اس پلیٹ فارم پر زیر غور لانے کے لئے متحرک رہتے تھے۔ آپ نے کئی دفعہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو وہاں زیربحث لانے کی کوششیں کی ہیں۔ 

آپ علمی و سیاسی لحاظ سے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ، حضرت سید احمد شہیدؒ، حضرت سید اسماعیل شہیدؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ رحمہم اللہ سے متاثر تھے۔ ان کی فکری پرداخت میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا کفایت اللہؒ، حضرت مولانا ابو الکلام آزادؒ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ رحمہم اللہ کا وافر حصہ ہے، اور وہ بھی بجا طور پر اس پر فخر کیا کرتے تھے اور وہ حضرت شیخ الہندؒ کے مقدس مکتبِ فکر کے علمبردار تھے۔ انہوں نے دین و سیاست میں انہی کی قیادت کو قبول کیا تھا۔ اور یہی وہ فکر تھی جس نے تشکیلِ پاکستان کے بعد ان کو بے چین رکھا تھا۔ اسی فکر کو لے کر انہوں نے ملک کے کونے کونے کا دورہ کیا اور خلوت گاہوں، خانقاہوں اور درس گاہوں سے علماء و مشائخ کو میدانِ سیاست میں آنے پر آمادہ اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے نظم سے ایک منظم جدوجہد میں شریک کیا۔ انہوں نے علماء اور دین دار طبقے کے وقار کو اپنے روشن کردار سے دوچند کیا۔

حضرت مفتی صاحبؒ نے سرکار کی دستبرد سے بچانے کے لئے مساجد، مدارس اور دینی مراکز کے تحفظ کے لئے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ نے جس جذبہ، تڑپ ، انہماک، بصیرت، فہم و فراست اور اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کی اس کا اعتراف دینی حلقوں میں برملا کیا جاتا ہے۔ دینی لحاظ سے متعلقہ طبقات میں ان سے انس و محبت اور عقیدت کا اندازہ اس وقت ہوا جب ان کا جنازہ اُٹھا، اس شان و شوکت سے روانہ ہوا جو اللہ کے مقبول بندوں کا خاصہ ہے کہ یہ اعزاز بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔ کراچی، ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور عبدالخیل میں ہر مقام پر لاکھوں افراد نے ان کے جنازہ میں شرکت کی تھی، ایک جنازہ ملتان ایئرپورٹ پر بھی پڑھایا گیا تھا۔ 

والد محترم حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ نے اپنی سیرت و کردار اور دینی، مذہبی اور سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جن کو مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے بیانات و تقاریر اور انٹرویوز فکری و نظری اعتبار سے نوجوان نسل کے لئے نشانِ منزل ہیں، اس سے پڑھنے والوں کے لئے فکر کی کشادہ راہیں روشن ہوتی ہیں۔ ان کی فکر میں گہرائی بھی ہے اور ادبی چاشنی بھی پائی جاتی ہے، ان کے ہر قول میں ایک پیغام ہے کیونکہ وہ ایک طویل تجربہ کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ ان کے اقوال سے ایک فکر، ایک نظریہ پروان چڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جن میں ان کے اعتقادات و خیالات کا تموج ہے اور جہاں پڑھنے والے کو روحانی لذت ملتی ہے وہاں ان میں غور و فکر کا تعمق اور عمل کی دعوت ہے۔ ان کے اقوال ان کے نظریات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان کے اقوال کو ان کے بیانات و تقاریر اور ان کے رسائل، اخبارات میں بکھرے ہوئے انٹرویوز سے جمع کیا گیا ہے۔ 

حضرت مفتی صاحب کی حیات میں ۱۹۷۴ء میں جناب اختر کاشمیری نے پاکٹ سائز میں شائع کرایا تھا جو مقبول خاص و عام ہو کر ہاتھوں ہاتھ نکل گئی۔ ۱۹۷۴ء کے بعد ۷ سال آپ حیات رہے اور یہ سات سال آپ کی جدوجہد کے بہت ہی تاریخی کارناموں سے بھر پور ہیں۔ ضرورت تو بہت پہلے سے تھی کہ ان میں اضافہ کیا جاتا مگر بعض وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔ 

بالآخر اس بیڑے کو جناب محمد فاروق قریشی نے اُٹھایا جنہوں نے مفتی محمود اکیڈیمی کے زیراہتمام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی حیات و خدمات سے متعلق متعدد کتب کو شائع کیا ہے۔ اکیڈیمی کے تحت مختلف سیمینارز کا اہتمام اور اس کی کارروائی کی تدوین و اشاعت کر کے حضرت مفتی صاحبؒ کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ان کے زیراہتمام مفتی محمود اکیڈیمی نوجوان نسل کی فکری آبیاری کے لئے فعال کردار ادا کر رہی ہے ۔ ’’اقوالِ محمود‘‘ میں قابل قدر اضافہ اور عنوانات سے مرصع خوبصورت اشاعت سے انہوں نے قومی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی قبول فرمائے اور حضرت مفتی صاحبؒ کے اقوال ’’اقوالِ محمود‘‘ کو شرفِ قبولیت اور قبولیتِ عامہ عطا فرمائے۔ آمین

(’’نکہتِ گل‘‘ از ’’اقوالِ محمودؒ‘‘ ص ۱۱ تا ۱۶۔ اشاعت ستمبر ۲۰۱۵ء)

شخصیات

(الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۱۰

قراردادِ مقاصد کا پس منظر اور پیش منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دستور میں حکومتی ترامیم: ملی مجلسِ شرعی کا موقف
ڈاکٹر محمد امین

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی

انسانیت کے بنیادی اخلاق اربعہ (۱)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ

مسئلہ جبر و قدر: متکلمین کا طریقہ بحث
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

’’اقوالِ محمودؒ‘‘ سے ’’نکہتِ گُل‘‘
مولانا فضل الرحمٰن

علما کیا خاموش ہو جائیں؟
خورشید احمد ندیم

مدارس دینیہ میں تدریسِ فقہ: چند غور طلب پہلو
ڈاکٹر عبد الحئی ابڑو

اہلِ کتاب خواتین سے نکاح: جواز و عدم جواز کی بحث
مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

جارج برنارڈشا کی پیشِین گوئی
حامد میر

سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، اردو کے پہلے ادیب و مصنّف
طفیل احمد مصباحی

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۲)
عبد اللہ صغیر آسیؔ

عہد نبوی میں رقیہ اور جلدی امراض کی ماہر خاتون
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی

افغانستان میں طالبان حکومت کے تین سال
عبد الباسط خان

سائنس یا الحاد؟
ہلال خان ناصر

ختمِ نبوت کانفرنس مینار پاکستان پر مبارکباد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

A Glimpse of Human Rights in Islam
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter