تحفظ ماحولیات میں اسلام کا کردار و رہنمائی

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


خالقِ کائنات نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی ایک مضبوط نظام عطا فرما کر پوری کائنات کو محفوظ و مامون بنا دیا جس پر قرآن مجید کی کئی آیات ِ مبارکہ شاہد ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

’’اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کروں اور ذروں کی شکل میں) چراغوں سے مزین فرما دیا ہے اور ہم نے ان(ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (یعنی سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اثرات ختم کرنے) کا ذریعہ (بھی) بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (الملک5)

مزید سورۃ الرحمن میں ارشادِ خداوندی ہے: 

’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔‘‘(الرحمٰن5)

یعنی یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں جو منزلیں اور بروج ان کیلئے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ روگردانی ، اپنے اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں کیا مجال کہ دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر کریں ۔کیا ہی انوکھا ، عجیب تر اور حیرت کن نظم و ضبط نظام شمسی میں رکھا ہے۔

تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بر بن فرح الانصاری الخزرجی شمس الدین قطبی سورۃ الرحمن کی اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

’’حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) اور ابو مالک (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ وہ (سورج اور چاند) حساب سے (اپنی اپنی) منازل میں چلتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے علیحدہ ہوتے ہیں (یعنی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے)۔‘‘

اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے، ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع و غروب ہوتا ہے، اسی سے ماہ و سال کا حساب بنتا ہے۔ اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے ۔

الغرض پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑا لیں ہر ذرے اور ہر کرے میں مکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے ہر قدرتی نظام میں ایک توازن پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز میں ایک نکھار اور تر و تازگی ہے۔

انسان نے جب بھی اس توازن کو عدم توازن میں لانے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے ۔تو واضح یہ ہوا کہ تخلیقِ کائنات میں کوئی کمی، کوئی کجی، کوئی نقص بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و مبرا ہے ۔یہ جو آج پوری دنیا مختلف قسم کی آلودگیوں میں گھری ہوئی نظر آتی ہے یہ انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے جس کا مختصر جائزہ یہ ہے -

جب دنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور ان کے وسیع پیمانے پہ استعمال کے دور میں قدم رکھا ، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گوناگوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی۔ اِس بے احتساب اور بھاگم بھاگ کی ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔

اس وقت انسانی جان کی بقا کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے ان میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔ جو موسم کی ناہمواری، درجہ حرارت کی کمی و زیادتی، خشک سالی، طوفان، سیلاب، قدرتی آفات اور دیگر انسانی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کثرتِ امراض جنم لیتے ہیں۔ اب تو فطری ماحول کی ناہمواری نے بھی انسانی وجود کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روئے زمین پر تمام جانداروں اور بالخصوص انسانی جان کے تحفظ کا انحصار جن باتوں پر کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک آلودگی سے پاک ماحول ہے۔ ہم سب کے لیے ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی اس سے پوری طرح اور بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کا تدارک سیرت النبی کی روشنی میں

واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ہم نے ہوا، پانی، مٹی، دھواں، درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی تک محدود کر دیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی کا(ISSUE) فقط انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ کار وسیع ہے اس کا اطلاق اخلاقی آلودگی، اقتصادی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی، ظاہری و باطنی آلودگی، ذہنی، فکری اور معاشرتی آلودگی پر بھی ہوتا ہے۔ ماحول ہی کی وجہ سے انسان جسمانی اور روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے اگر معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھو بیٹھے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جہاں پر شرفاء اور غرباء کے لیے ایام زندگی گزارنا مشکل ہو جاتے ہیں اور اگر معاشرہ اپنی طبعی اور احساسی اقدار کھو بیٹھے تو ہر گلی و کوچہ غلاظت اور گندگی کا ڈھیر بن جائے۔

پورا شہر ہر جگہ کھڑے بدبودار پانی کی وجہ سے فلڈ ایریا کی صورت اختیار کر لے تو پھر ایسی جگہ پر طبعی اور طبی لحاظ سے انسانی زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کی تعلیم دی ہے تاکہ انسان ذہنی، فکری اور جسمانی لحاظ سے محفوظ اور پرسکون زندگی گزار سکے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی سیرت طیبہ ان ہمہ قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا احاطہ کرتی ہے۔

طوالت کے خوف کی وجہ سے سیرت طیبہ ؐ میں سے یہاں پر فقط چند چیزوں کو ذکر کیا جاتا ہے:

پانی کو ضائع کرنے کی ممانعت

پانی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اس کو محفوظ کیا جائے اور ہر ممکن اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی کے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے جس قدر تاکید فرمائی ہے آدمی پڑھ کر حیران ہو جاتا ہے

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: 

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو ۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ و سننہا)

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: 

’’ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کر رہے تھے )پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسے دیکھ کر) فرمایا اے سعد!یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔ ‘‘(ایضا)

پانی کو نجاست سے بچانے کا حکم

جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح آپ نے پانی کو نجاست وغیرہ سے بھی بچانے کا حکم فرمایا ہے چاہے پانی ٹھہرا ہوا ہو یا جاری ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: 

’’تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے ۔‘‘(ایضا)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: 

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط، رقم الحدیث: 1749)

پانی کے تحفظ کی احتیاطی تدابیر

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ممکن پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے چند مقامات ایسے ہیں جہاں سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے مثلا: غسل کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کیلئے صابن کے استعمال کے وقت ٹوٹی کو کھلا نہ رکھا جائے، برتن، کپڑے یا گھر کی صفائی کے لئے کسی بالٹی میں پانی ڈال کر استعمال کرنا چاہیے کیونکہ پائپ سے پانی زیادہ ضائع ہو جاتا ہے- اسی طرح مسواک اور وضو کرنے کے لئے بھی پانی لوٹا یا کسی برتن میں ڈال کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ حد درجے تک پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور گھر کے استعمال شدہ پانی کو گلیوں میں فضول نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ایک تو کھڑے پانی سے گلی ، محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے اور دوسرا اس سے جراثیم و بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے اسے فصلوں، کھیتوں یا کسی طریقے سے کار آمد بنانا چاہیے۔ اسی طرح ملکی سطح پر بھی بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے بڑے بڑے ڈیم اور بند قائم کیے جائیں اور اسے کار آمد بنایا جائے۔ پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنی چاہیے-

پانی کے ایک ایک گھونٹ پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: 

’’اللہ اس بندے پر خوش ہوتا ہے جو کھانا کھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے یا جو بھی چیز پیئے اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعا والتوبۃ)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے کہ: 

’’یا اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہو جانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الرقاق)

زمینی اور فضائی آلودگی کا تدارک

زمینی اور فضائی آلودگی سے نجات پانے کا ایک ذریعہ شجر کاری بھی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر کاری کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ترغیب بھی دلائی اور درخت لگانے پر اجر ملنے کا مژدہ بھی سنایا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کاشت کرے پس اس میں سے پرندے ، انسان یا جانور کھالیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب المزارع)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس درخت میں سے جتنا کھا لیا جائے تو اس (درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس میں سے چوری ہو وہ بھی اس کا صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے درندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے پرندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے (غرض یہ کہ) جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہو جائے گا ۔‘‘(صحیح مسلم ، کتاب المساقاۃ)

صحابہ کرام ؓکا شجرکاری کرنا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: 

’’میں ایک دن درخت لگا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! کیا کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !درخت لگا رہا ہوں ۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الادب)

حضرت قاسم مولی بنی یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: 

’’ان کے پاس سے ایک شخص گزرا ۔اس وقت وہ دمشق میں پودا لگا رہے تھے۔ اس شخص نے ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ بھی یہ (دنیاوی) کام کررہے ہیں حالانکہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے (ملامت کرنے میں) جلدی نہ کر۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالی کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (مسند احمد ، رقم الحدیث : 28270)

بلاضرورت درختوں کو کاٹنے کی ممانعت

حضرت عبد اللہ بن حبش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا -حضرت امام ابو داؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ: یہ حدیث مختصر ہے( پوری حدیث اس طرح ہے )کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘  (سنن ابو دائود، باب فِی قطعِ السدر)

بازار یا راہ گزر پہ گندگی پھیلانے کی ممانعت

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں راستوں تک کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

’’ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنی شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’ایک آدمی نے قطعا کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا) اللہ تعالی نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا۔‘‘ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’لعنت کے تین کاموں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں اور سائے میں قضائے حاجت کرنے سے۔‘‘ (سنن ابو داؤد ، کتاب الطہارۃ)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’لعنت والے تین مقامات سے بچو۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ لعنت والے مقامات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: جس سائے کو استعمال کیا جاتا ہو، اس میں یا راستے میں یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا۔‘‘ (مسند حمد ، رقم الحدیث : 2767)

قارئین کرام! پاکیزگی اور صفائی کے اعتبار سے اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے۔اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ہر سلیم الطبع انسان صفائی ستھرائی و خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور گندگی، ناپاکی اور غلاظت سے ناپسندیدگی و نفرت کا اظہار کرتا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک کیلئے سیرت طیبہ ؐکی طرف رجوع کرنا چاہیے ،اور ماحول کو پاک صاف رکھ کر اپنا اور اپنے آنے والی نسلوں کا خیال رکھیں۔


دین اور معاشرہ

(الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء)

الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء

جلد ۳۵ ۔ شمارہ ۷

محترم مجیب الرحمٰن شامی کی خدمت میں!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۴)
ڈاکٹر محی الدین غازی

قرآن کی سائنسی تفسیر
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۳)
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

تحفظ ماحولیات میں اسلام کا کردار و رہنمائی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

یوم نکبہ اور فلسطینیوں کے لیے اس کی اہمیت
اسلامک ریلیف

رُموزِ اوقاف
ابو رجب عطاری مدنی

سینیٹر مشتاق احمد کے ’’غزہ بچاؤ دھرنا‘‘ میں مولانا زاہد الراشدی کی شرکت
سید علی محی الدین

قائدِ  جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی صحبت میں چند ساعتیں!!
مولانا حافظ خرم شہزاد

سوال و جواب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین‘‘
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

A New Round of the Qadiani Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

The Pseudo-Believers of the State of Madina
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تلاش

Flag Counter