اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Modernity کا دسواں باب)
دسواں باب: مشترکات
اب تک میں نے کوشش کی ہے کہ مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین کے درمیان بنیادی اختلافات کو نمایاں کروں، اور یہ کہ ان کی بدعت کی تعریف کیا ہے، اور وہ اس کے خطرے کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس باب میں، میں بتاؤں گا کہ علما کے ان دو مخالف کیمپوں کے درمیان کیا کیا مشترکات ہیں۔ یہاں میں جن بنیادی سوالات کا جواب دوں گا، وہ یہ ہیں:
- مولانا احمد رضا خان کا تصورِ بدعت کیا تھا؟
- ان کی نظر میں شرعی حدود سے تجاوز کا مطلب کیا تھا؟
- ان کا تصوّرِ اصلاح کیا تھا؟
- عوام کی روزمرہ مذہبی زندگی میں کون سے امور قابلِ اعتراض ہیں، اور کیوں؟
چلیں میں مختصراً واضح کرتا ہوں کہ میری اس کد وکاوش کا مقصد کیا ہے۔ گزشتہ صفحات میں میں نے بڑی حد تک مختلف رسوم وعادات پر علماے دیوبند کی تنقید اور ان اعمال کے شرعی جواز کے حق میں مولانا احمد رضا خان کے دفاع کو پیش کیا ہے۔ لیکن یہ تصویر ادھوری اور ٹیڑھی رہے گی، اگر ہم دیوبندیوں کو استعماری جنوبی ایشیا میں رائج رسموں کے محض معترضین اور بریلویوں کو ان کے مدافعین سمجھنے لگ جائیں۔
مولانا احمد رضا خان کی فکر کے ایک دقیق جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں وہ علماے دیوبند کے ناقد تھے، وہیں وہ پوری گہرائی کے ساتھ بلکہ بعض اوقات تو ان سے بھی زیادہ اس طریق کار کے ناقد تھے، جس کے مطابق عوام رسوم ورواجات میں شریک ہوتے ہیں۔ دیوبندیوں سے ان کے اختلاف کی اصل وجہ جائز اعمال کو ناجائز قرار دینے کا اصولی اختلاف تھا، بالخصوص وہ اعمال جن سے رسول اللہ ﷺ کی توقیر ہوتی ہو۔ ان کے اور دیوبندیوں کے درمیان روایت اور زمنیت کے تعامل پر بھی شدید اختلاف تھا، جسے میں نے گزشتہ باب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ تاہم ان فکری اختلافات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا احمد رضا خان عوام کے روزمرہ چال چلن سے دیوبندیوں کے بنسبت کچھ کم غیر مطمئن تھے۔ خان کوئی آزاد خیال بزرگ نہیں تھے۔ نہ وہ ایسے روادار صوفی تھے، جن کا موازنہ دیوبندیوں کی نام نہاد خشک فقہیت سے کیا جا سکتا ہو۔ اس کے برعکس خان کو ان چیزوں کے مقابلے میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک متصور شناخت کی نگرانی اور تحفظ کا فوری خدشہ لاحق تھا، جنھیں وہ داخلی اور خارجی غیر سمجھتے تھے۔ انھیں ہندوستانی مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں رائج عادات واطوار کے بارے میں شدید بے چینی تھی۔ مزید برآں بالکل اپنے دیوبندی مخالفین کی طرح عوام کی روزمرہ زندگی کو باضابطہ بنانے کے لیے ان کی کاوشیں بیک وقت شرعی حدود کو پائمال نہ کرنے کی عوامی صلاحیت کے متعلق وہ کچھ زیادہ خوش گمان نہ تھے۔ میں اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔
موت، خوراک، میزبانی
درج ذیل سوال پر غور کریں جو مولانا احمد رضا خان سے ان عورتوں کے بارے میں پوچھا گیا، جو فوتگی کے فوراً بعد تعزیت کے لیے میت کے گھر میں جمع ہوتی ہیں:
ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں مرحوم کے دوستوں اور رشتہ داروں کی خواتین میں یہ رائج ہے کہ فوتگی کے دن ہی مرحوم کے گھر آجاتی ہیں۔ عام طور پر وہ تین، دس حتی کہ چالیس دن میت کے گھر میں گزارتی ہیں۔ وہ مرحوم کے گھر کو خوشی کی ایک تقریب کے مقام میں بدل دیتی ہیں، گویا وہ کسی شادی میں شرکت کے لیے آئی ہیں۔ اس طویل اقامت کے دوران مرحوم کا خاندان بغیر کسی پس وپیش کے ان مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہراتا ہے، ان کے کھانے پینے اور پان چالیا تک کے اخراجات اٹھاتا ہے۔ ان اخراجات کو اٹھانے میں بسا اوقات انھیں شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتی کہ بعض اوقات انھیں سود پر قرضہ لینا بھی پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ اچھی طرح سے مہمانوں کی خاطر تواضع نہ کریں، تو مہمان انھیں طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ شرعاً جائز ہے1؟
اس سوال کے جواب میں خان برہمی کے اظہار کے ساتھ سائل پر طنز کے تیر ونشتر چلاتے ہوئے کہتے ہیں: "سبحان اللہ، اے مسلمان! تم پوچھتے ہو کہ کیا یہ شرعاً جائز ہے؟ اس کے بجاے آپ کو پوچھنا چاہیے تھا کہ اس غلیظ رسم میں کون کون سی گھناونی اور قبیح صفات یک جا ہو گئی ہیں2؟"
سب کچھ ایک طرف رکھ دیجیے، مرحوم کے گھر کو ایک بڑی سماجی تقریب میں بدل دینا بذات خود حرام ہے، خان نے سختی سے کہا۔ میت کے خاندان پر ضیافت کا بوجھ بالکل بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔ اپنے مقدمے کے اثبات میں خان نے پندرھویں صدی کے مصری حنفی فقیہ علامہ ابن الہُمام (م 1457) کی شرح فتح القدیر (جو فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کی شرح ہے) کا حوالہ دیا: "میت کے گھر والوں سے ضیافت کھانا مکروہ ہے، کیوں کہ ضیافت خوشی کے لمحات میں جائز ہے، نہ غمی کی صورت میں۔ (غمی کی صورت میں ضیافت) ایک قبیح بدعت ہے"3 (يكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت، لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعةٌ مستقبحة)۔ سب سے مناسب اور شرعاً مطلوب عمل یہ ہے کہ میت کی تعزیت میں شریک خاندان کے افراد کو پڑوسی اور رشتہ دار کھانا کھلائیں، تاکہ اس صدمے کے دوران انھیں کچھ راحت نصیب ہو۔ خان نوحہ کناں ہیں کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔
مصیبت زدہ خاندان سے تعاون کرنے اور انھیں راحت پہنچانے کے بجاے ان پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کرنے اور انھیں کھانا کھلانے اور اخراجات اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حتی کہ انھیں اس مقصد کے لیے ادھار لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو اس رسم کی ہول ناکی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ لیکن خان کو سب سے زیادہ جس چیز سے پریشانی ہے، وہ ایسے مواقع پر خواتین کا طرز عمل ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: "یہ خواتین میت کے گھر میں جمع ہوتی ہیں، اور ہمہ اقسام کے قابل اعتراض امور کا ارتکاب کرتی ہیں۔ وہ دھاڑیں مار مار کر روتی ہیں، پاگلوں کی طرح چیختی ہیں، اپنے سینوں کو زد وکوب کرتی ہیں، اور اپنے چہرے کو دکھاوے کی خاطر ڈھانپ کر رکھتی ہیں، تاکہ وہ غمگین نظر آئیں"4۔
یہ تمام حرکات نوحے کے زمرے میں آتی ہیں، اور نوحہ حرام ہے۔ جہاں پر ایسی عورتیں جمع ہوں، میت کے دوستوں اور رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہاں پر کھانا بھی نہ بھیجیں، کیوں کہ یہ گناہ میں تعاون کرنے کے مترادف ہوگا5۔ مولانا اشرف علی تھانوی اور خان کے دیگر دیوبندی حریف معمولی پس وپیش کے ساتھ ان جذبات کی تائید کریں گے۔ رسم ورواج پر بریلویوں اور دیوبندیوں دونوں کی تنقیدات ایک بھاری خدشے میں ملفوف ہیں۔ یہ خدشہ اخلاقی نظام اور استحکام کے لیے عورت کا وبائی خطرہ ہے، جسے دبانا ضروری ہے۔ استعماری جنوبی ایشیا میں مسلم مصلحین کی فکر پر خواتین کا بھاری بھر کم بوجھ سوار ہے، جیسا کہ فیصل دیوجی نے اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ہر ایک مصلح عورت کو، مثال کے طور پر، ایک منحوس اور مہلک خرابی کے کردار کے طور پر دیکھتا ہے۔۔۔ مغلوب نسوانیت کے مقابلے میں مردانہ زدپذیری (vulnerability) کا یہ احساس صرف اس صورت میں ابھر سکتا ہے، جب بذات خود ان مردوں کو استعمار نے مغلوب کر دیا ہو"6۔
خان کی طرف واپس آتے ہیں۔ ان کا اساسی نکتہ یہی تھا کہ اگر چہ ایصالِ ثواب کے لیے کھانا کھلانا جائز ہے، لیکن (کسی شخص کی فوتگی کے موقع پر) ضیافت کے طور پر کھانا پیش کرنا ناجائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے فوتگی خوشی کی ایک تقریب میں بدل جاتی ہے، اور فوتگی کا غم اور اہمیت زائل ہو جاتی ہے۔ جب کوئی شخص مرتا ہے، تو لوگ اس کی موت پر خفا ہونے کے بجاے کھانے کے مشتاق نظر آتے ہیں۔ اس نکتے پر زور دینے کے لیے مولانا احمد رضا خان نے عربی کے ایک مقولے کی من پسند تشریح پیش کی۔ مقولہ کچھ یوں ہے: فوتگی کے موقع پر کھانا کھانا دل کو مردہ کر دیتا ہے (طعام الميّت يُميتُ القلبَ)۔ خان نے بتایا کہ اس مقولے میں ان لوگوں کی حالت کا بیان ہے جو اپنے معاشرے میں کسی کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس کے کھانے سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ایسے لوگوں کے دل مردہ ہیں، کیوں کہ وہ کھاتے وقت موت سے غافل اور کھانے کی لذت میں شاغل ہوتے ہیں۔ خان نے تنبیہ کی کہ یہ فوتگی کو بڑی تقریبات اور کھانے پینے میں بدلنے کا افسوس ناک نتیجہ ہے۔
مولانا احمد رضا خان کے مطابق (فوتگی کے دن) میت کے خاندان کو کھانا کھلانے کے ساتھ واحد جائز عمل یہ ہے کہ غربا میں کھانا تقسیم کیا جائے۔ معاشرے کے دیگر افراد کو بلانے اور ان میں کھانا تقسیم کرنے کا کوئی مقصد نہیں۔ اور مال داروں کو بطور خاص ایسا کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر انھیں یہ کھانا بھیج بھی دیا جائے، تو انھیں چاہیے کہ اسے غربا کو دے دیں۔ ان آرا سے بھی علماے دیوبند کے لیے اختلاف کی گنجائش کم ہے۔ لیکن ان مشترکات کے باوجود اس کلیدی سوال پر خان صاحب کا موقف اپنے دیوبندی مخالفین سے الگ تھا: ایصالِ ثواب کی خاطر کھانا تقسیم کرنے کے لیے دن کی تخصیص۔ علماے دیوبند کے برعکس خان کو مثلا مروّجہ تیجے، دسویں یا چہلم کی تخصیص سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ خان صاحب نے بتایا کہ کسی دن کی تخصیص مصالح عرفیہ کے حصول کے لیے ہے، اور اس وجہ سے جائز ہے7۔
مشروط نجات
لیکن جہاں چند مسائل کے حوالے سے خان کے رویے میں لچک تھی، مثلاً کھانے کی تقسیم کے لیے دن کا تعین، وہیں ان لوگوں کی مذہبی وابستگی کے بارے میں بالکل بے لچک تھے، جن میں یہ خوراک تقسیم کیا جاتا، یا جن کی ارواح کو اس کا ثواب بخش دیا جانا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ صرف ایسے مسلمان کی روح کو فقرا میں کھانے کی تقسیم سے حاصل ہونے والی برکات حاصل ہو سکتی تھیں جو ضروریات دین کا منکر نہ ہو ۔ اور صرف ایسے بے داغ کردار کے حامل شخص کے لیے یہ کھانا لینا اور کھانا جائز ہے۔ تمام غیر مسلم، چاہے وہ مشرکین ہوں یا غیر مشرکین، وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔ اسی طرح ان اسلامی فرقوں کو بھی ایصال ثواب کا کھانا دینا یا کھلانا جائز نہیں، جو ضروریاتِ دین کے منکر ہوں، جیسے شیعہ (رافضی/تبرّائی) جو اولین دو خلفا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو مسترد کرتے ہیں، یا ان کی توہین کرتے ہیں8۔
اس بابت خان صاحب کا رویہ نیچ ذات کے چماروں کے بارے میں بے انتہا متشددانہ ہے۔ ایصالِ ثواب کے موضوع سے ذرا ہٹ کر اس پر بات کرتے ہیں۔ ایک بار خان صاحب سے ان ہندوؤں کے مقام کے بارے میں پوچھا گیا جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان سے بطور خاص پوچھا گیا کہ قبول اسلام کے بعد ان کے لیے جائز ہے کہ اپنی اس ذات یا برادری سے منسوب رہیں، جس سے وہ اسلام لانے سے پہلے منسوب تھے؟ اپنے جواب میں خان صاحب نے واضح کیا کہ چوں کہ دینی شناخت کا تعلق کسی مخصوص گروہ یا قبیلے سے نہیں، اس لیے قبول اسلام کے بعد اپنی ذات یا برادری سے منسوب رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں یہ ایک عام رواج تھا۔ خان صاحب نے واضح کیا کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں، اور اس وجہ سے اس کے مقابلے میں برادری اور ذات پات کی تمام نسبتیں بے حد معمولی بن جاتے ہیں9۔
تاہم اس کے باوجود ماقبل اسلام کی سماجی حیثیت مکمل طور پر غیر متعلق نہیں ہو جاتی۔ بلکہ روایات میں آیا ہے کہ جب کسی قوم کا معزز شخص تمھارے پاس آئے، تو تم ان کی عزت کرو (إذا أتاكم كريمُ قومٍ فأكرِموه)۔ اس حدیث کو ہندوستانی سیاق میں پیش کرتے ہوئے خان کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہندو ٹھاکر یا راجپوت کسی مسلمان کے پاس آتا ہے، تو چاہیے کہ وہ اسے عزت دے۔ اس لیے کہ ٹھاکر/راجپوت ہندوستانی سماج میں معزز سمجھے جاتے تھے۔
قبولِ اسلام یا خان کی تعبیر کے مطابق "بالکل ٹوٹ کر ہم میں آ ملنے" سے سماجی مقام میں ہزار گنا اضافہ ہو جاتا ہے، خان صاحب نے واضح کیا۔ حتی کہ جب کوئی چمار مسلمان بن جاتا ہے، تو اسے کم تر جاننا قطعاً حرام ہے، کیوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں وہ دین میں ہمارا بھائی بن جاتا ہے"10۔
بالفاظ دیگر خان کی نظر میں قبول اسلام ان نیچ ذات کے لوگوں کو بھی یہ موقع دیتا ہے کہ وہ تمام سماجی داغ دھبوں سے پاک ہو کر از سرِنو زندگی کا آغاز کریں۔ اور جو پہلے سے کسی معزز مقام ومرتبے کے حامل ہیں، اسلام قبول کرنے سے ان کے رتبے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے- ہزار گنا زیادہ۔
تاہم یہ رعایت صرف انھیں حاصل ہے جنھوں نے قبول اسلام کے سنگ میل کو عبور کیا ہو۔ ایک اور موقعے پر خان سے پوچھا گیا کہ غیرمسلم نادار چماروں میں ایصالِ ثواب کے کھانے کی تقسیم کا حکم کیا ہے؟ سائل کچھ اس انداز سے پوچھتا ہے: "میت کے تیجے کے موقع پر لوگ چنوں کے اوپر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور بقیہ مشرک چماروں کو دے دیا جاتا ہے۔ کیا جن چنوں پر قرآن پڑھا گیا ہے، انھیں (ہندو) چماروں کو کھلانا جائز ہے"11؟ "یہ کھانا مشرک کو یا (غیر مسلم) چمار کو دینا گناہ ہے، گناہ ہے، گناہ ہے"12۔ خان کی نظر میں چمار کو کھانا کھلانے میں ثواب تب ہے جب وہ مسلمان ہو۔ چمار کی سماجی حیثیت اور دینی احترام اس امر پر منحصر ہے کہ وہ باضابطہ طور پر اسلام قبول کر لے۔ ایک بار وہ اسلام قبول کرلے، تو پھر وہ مسلمانوں کی رسمی تقریبات کا حصہ بن سکتا ہے۔ لیکن یہ دروازہ اس کے لیے اس وقت تک بند ہے جب تک وہ "ٹوٹ کر ہم سے نہ آ ملے"۔ صرف صحیح مذہب قبول کرنے کے بعد ہی موت سے پہلے یا موت کے بعد چمار کی کچھ میزبانی کی جا سکتی ہے۔
شعائر اللہ کا تحفظ
مولانا احمد رضا خان عوامی دائرے میں مسلمانوں کی امتیازی علامات کے تحفظ کے بھرپور داعی تھے۔ غیر مسلموں (بالخصوص ہندؤوں) کی نقالی یا ان کی تہواروں میں شرکت پر ان کی تنقید کی کاٹ دیوبندی مخالفین اور شاہ محمد اسماعیل کے برابر یا شاید ان سے بھی زیادہ تھی۔ مثلاً ایک بار خان سے پوچھا گیا کہ کہ مسلمانوں کے لیے ہندو تہواروں جیسے رام لیلا (رام چندر جی کی فتح یابی کی ڈرامائی نقل) اور دوسہرہ (راون پر رام کی فتح کی یاد میں میلا) میں جانے کی بارے میں آپ کی راے کیا ہے۔ بلکہ ان سے پوچھا گیا کہ ان مقامات میں وقت گزارنے پر کیا شرعی نتائج مرتب ہوتے ہیں، جہاں کفریہ اور شرکیہ کلمات اور نعرے پوری آزادی سے لگائے جاتے ہوں۔ کیا یہ کسی مسلمان کے ایمان کو ضرر پہنچاتا ہے13؟ خان صاحب نے اس کا جو جواب دیا، اس میں تہوار میں شرکت کی نوعیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی کہ وہاں جانے کا مقصد کیا تھا؟ اس شخص نے وہاں پر کیا کیا؟ اور سب سے اہم یہ کہ جب وہ وہاں پر تھا تو اس کے ساتھ کیا حالات پیش آئے؟
خان صاحب کی راے میں اگر یہ تہوار مذہبی ہو تو پھر تو بہر صورت اس میں شرکت حرام ہے، کیوں کہ اس تقریب میں ضرور کچھ ایسی باتیں اور سرگرمیاں ہوں گی، جو بنیادی اسلامی عقائد کے خلاف ہوں گی۔ تاہم حرام ہونے کے باوجود صرف اس تہوار میں شرکت کرنا کفر نہیں ہوگا۔ البتہ وہاں جو کچھ ہوا، اس کو مثبت انداز سے دیکھنا اخروی اعتبار سے خطرناک نتائج کا حامل ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ مثال کے طور پر اگر ایک مسلمان ہندؤوں کے بھجن اور رسموں، جو شرک کی تبلیغ اور توحید کی تردید کرتی ہیں، کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھنے لگ جائے تو خطرہ ہے کہ وہ کہیں کافر نہ بن جائے۔ اس شخص کے لیے اور بھی بڑا خطرہ ہے جو ان بھجنوں اور رسموں کو ہلکا لیتا ہے، اور اس میں شرکت کے جرم کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ ایسے لوگ نہ صرف دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، بلکہ نتیجتاً ان کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے14۔ کسی تہوار میں شرکت کی یہ بڑی بھاری قیمت ہے!
اگر یہ کوئی مذہبی تہوار نہ ہوتا، بلکہ بنیادی طور غیر مذہبی میلہ ہوتا، تو بھی افضل یہی ہے کہ ایسی جگہوں میں جانے سے اجتناب کیا جائے، جہاں ہندؤوں کی اکثریت ہو، خان صاحب نے نصیحت کی۔ "یہ ممکن نہیں کہ ایسی تقریبات میں قابل اعتراض یا مکروہ اعمال نہ ہوں"15۔ لیکن ان مسلمان دکان داروں اور تاجروں کا کیا حکم ہے، جو ایسے مقامات پر صرف اپنی تجارت یا کمائی کی خاطر جاتے ہیں؟ خان صاحب نے کہا کہ انھیں اس کی اجازت ہے بشرط یہ کہ وہاں پر کفر وشرک کی کوئی علامت نہ ہو، اور نہ وہ کسی ناگوار عمل کو دیکھیں، اور نہ اس میں بذاتِ خود شریک ہوں۔ پھر بھی بہتر یہی ہے کہ وہ ایسے مقامات میں جانے سے مکمل گریز کریں۔
مولانا احمد رضا خان کے مطابق صرف ایک صورت ہے، جس میں ہندؤوں کی تہواروں، چاہے مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، میں نہ صرف یہ کہ شرکت جائز بلکہ درحقیقت مستحب اور قابل تعریف ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان عالم وہاں پر لوگوں کو اسلام کی تعلیم وتبلیغ کے لیے جائے۔ انھوں نے واضح کیا کہ غیر مسلموں کو دعوت دینے کی غرض سے رسول اللہ ﷺ بذاتِ خود بار بار ایسے مقامات پر جاتے۔ یہاں پر ان کا مقصد یہ تھا کہ اس عمومی قاعدے سے ایک استثنا قائم کریں16۔ تو خان صاحب کے نزدیک صرف ایک مسلمان عالم، جس کے پاس تعلیم وتبلیغ کی مناسب مہارت ہو، ہندو تہواروں میں بار بار جا سکتا ہے۔ صرف ایک ایسا مسلمان عالم جو لوگوں کو راغب کر سکتا ہو، ان کی رہ نمائی اور آخرت میں ناکامی سے حفاظت کر سکتا ہو،وہ منحرف کفری مقامات، افکار اور تہواروں کے خطرے سے محفوظ ہوتا ہے۔ ایسا عالم کفر وشرک کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے، جو مطلوبہ علمی اسلحے اور ساز ومان سے لیس ہو۔ جہاں تک عام لوگوں کی بات ہے، ان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ ان خطرات سے خود کو دور رکھیں، ایسا نہ ہو کہ ان کی آخرت قبل از وقت برباد ہو جائے۔
جیسا کہ میں نے کہیں اور بھی بتایا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کی اصالت کو برقرار رکھنے کی جو کوشش مولانا احمد رضا خان کر رہے تھے، وہ ایک سلطانی سیاستِ شرعیہ کے بیانیے میں ملفوف تھی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دیگر مذہبی معاشروں پر مسلمانوں کے غلبے اور برتری کو برقرار رکھا جائے17۔ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کی عدم موجودگی میں ایسی کوششوں کا رخ مکمل طور پر روزمرہ کی رسموں اور اعمال کی طرف پھر گیا۔ مثال کے طور پر خان صاحب بیسویں صدی کے اوائل میں برپا ہونے والی تحریک خلافت کے قائدین (ایک استعمار مخالف تحریک جس کا مقصد خلافتِ عثمانیہ کی بحالی تھی) پر شدید تنقید کرتے تھے؛ کیوں کہ انھوں نے گاندھی سے قربت واتحاد اختیار کیا تھا۔ خان کو اس اتحاد کے سیاسی فوائد کی بجاے عوامی دائرے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قربت سے زیادہ بے چینی تھی۔ اپنے دیوبندی حریفوں کی طرح ان کے لیے بھی سب سے اہم شعائرِ اسلام کا تحفظ تھا۔ اگر ہندؤوں سے موالات کی حمایت کی جائے، جو ان کی نظر میں تحریک خلافت کے قائدین کر رہے ہیں، تو شعائرِ اسلام اور اس کے نتیجے میں ناگریز طور پر مسلمانوں کی اخلاقی برتری مٹ جائے گی۔ ان کی مذہبی افکار میں اس شدید بے چینی کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں18۔
تاہم خان صاحب کوئی بے لچک اور انتہا پسند تکفیری نہ تھے؛ وہ بھی عملی سیاست میں کافی دل چسپی رکھتے تھے۔ مثلاً تحریک خلافت کے دوران انھوں نے تحریک سے جڑے ان علما، جیسے مولانا ابو الکلام آزاد (م 1958) کی یہ دعوت پوری شدت سے مسترد کر دی کہ برطانیہ کے خلاف جہاد کیا جائے۔ ایک طاقتور سامراجی طاقت کے خلاف یہ دعوت نری حماقت ہے، خان صاحب نے واضح کیا۔ علاوہ ازیں انھوں نے برطانوی استعمار سے ترکِ موالات کی تحریک کو بھی مسترد کر دیا، جس کا تحریکِ خلافت نے (گاندھی کے عدم تعاون کی تحریک سے موافقت میں) مطالبہ کیا تھا۔ خان صاحب نے بتایا کہ استعمار کے خلاف ایسی تحریک سے صرف ہندوستانی مسلمانوں کو سماجی اور معاشی طور پر نقصان ہوگا، جب کہ برطانوی حکومت کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔ بلکہ انھیں یقین تھا کہ برطانیہ کے خلاف یہ نام نہاد بائیکاٹ گاندھی کی ایک چال ہے، تاکہ وہ مسلمانوں کی سماجی اور معاشی حیثیت کو کم زور کرے۔ ان کی نظر میں یہ ایک سازش تھی، اور تحریکِ خلافت کے قائدین/علما دانستہ یا نادانستہ طور پر اس سازش کا حصہ بن گئے تھے۔
برطانیہ کے خلاف جہاد برپا کرنے کے انتہائی مخالف استعمار اقدام کو مسترد کرکے خان صاحب نے ایک عملی موقف اختیار کیا، اور وہ یہ تھا کہ باوجود یہ کہ برطانوی غیر مسلم ہیں، لیکن ان سے مالی عقود اور تعلقات قائم کرنے چاہییں۔ ان کے استدلال کی بنیاد حقیقی دوستی (جو غیرمسلموں کے ساتھ ناجائز ہیں) اور محض تجارتی تعلقات (جو جائز ہیں) میں تفریق تھی۔ بلکہ انھوں نے مسلمانوں کو یہاں تک اجازت دی کہ اگر ضرورت ہو، تو انھیں برطانویوں کی طاقت واقتدار کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے دوستی کا دکھاوا کرنا چاہیے19۔
ان سب باتوں کا مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ بیرونی 'غیر' سے متعلق خان کی آرا تہہ در تہہ پیچیدگیوں کی حامل ہیں، اور اس وجہ سے ان کی تصویر کشی روادار/تکفیری، پرامن/متشدد اور اصلاحی/غیر اصلاحی جیسے تقابلات سے نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اپنا ایک اصلاحی ایجنڈا پیش کیا، جس میں جہاں مکمل اخلاقی پاکیزگی کے حصول کی خواہش تھی، وہیں برطانوی استعمار کی موجودگی میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے عدم امکان کا حقیقت پسندانہ اعتراف بھی تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سیاسی حقیقت پسندی کو روزمرہ زندگی کے دائرے میں ان کی مثالیت پسندی کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے، کیوں کہ انھوں نے ان تھک کوشش کی کہ عوامی دائرے میں شعائر اسلام کی برتری اور اصالت کو قائم کرے۔
روزمرہ زندگی کی اصلاح
خان صاحب اور ان کے دیوبندی مخالفین کے نزدیک قانون کی حدود محض ایک نظری معاملہ نہیں۔ قانونی حدود کی تشکیل اور تنفیذ صرف اس صورت میں بامعنی ہو سکتی ہے، جب دین دار عوام ان حدود کے مطابق خود کو ڈھالیں، اور پوری باریک بینی سے مرتب کی گئی سماجی اقدار اور ترجیحات کو معمول بنائیں۔ مثال کے طور پر شمالی ہندوستان میں وسیع پیمانے پر رائج تفریحی سرگرمیوں (جو آج تک جنوبی ایشیا میں جاری ہیں)، جیسے پتنگ بازی، تاش اور شطرنج، بٹیروں اور مرغوں کی لڑائی کے مقابلے اور جانوروں کے شکار سے متعلق ان کی بحث کو ملاحظہ کیجیے۔ ان اعمال کو ممنوع قرار دینے کے ساتھ ساتھ مولانا احمد رضا خان ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ انھوں نے جزئی تفصیلات کے ساتھ بتایا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے، جو ان جیسے اعمال میں شرکت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خان صاحب نے ہدایت کی کہ اگر کسی ایسے شخص سے آمنا سامنا ہو، جو مرغوں کی لڑائی کے مقابلے منعقد کرتا ہے، یا کبوتر بازی میں گھنٹے صرف کرتا ہے، تو افضل یہی ہے کہ اسے سلام نہ کیا جائے۔ اور اگر وہ سلام کرے تو یہ ضروری نہیں کہ اس کے سلام کا جواب دیا جائے۔ خان صاحب کے تصورِ شریعت میں یہ کافی نہیں تھا کہ کسی عمل کو صرف شرعاً ناجائز قرار دیا جائے۔ شرعی ممانعت کے ساتھ ساتھ عوامی دائرے میں اس عمل سے براءت کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔ شرعی حدود سے تجاوز کے مرتکبین کی نہ صرف یہ کہ علمی تردید کی جائے، بلکہ سماجی طور پر بھی ان سے براءت اور اگر ضروری ہو تو قطع تعلق بھی کرنا چاہیے20۔
تفریح کے لیے جانوروں کے شکار کی ممانعت کے متعلق خان صاحب کے استدلال سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ عوام کو ایک مخصوص معنوں میں دین دار دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ شکار بالکل جائز ہے اگر اس سے کسی مفید مقصد کی تکمیل ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر خوراک یا دوائی یا کسی اور مفید مقصد کی غرض سے شکار میں کوئی حرج نہیں۔ مچھلی پکڑنا یا شکار کرنا اس صورت میں ناجائز ہے، جب اس کا مقصد کھیل کود یا تفریح ہو۔ لیکن یہ پتا کیسے چلے گا کہ شکار کا مقصد تفریح ہے، یا کوئی جائز مقصد جیسے خوراک کا حصول؟ تفریح اور ضرورت/مقصد کے درمیان تفریق کے لیے بنیادی پیمانہ کیا ہے؟ یہاں پر خان صاحب کا جواب بہت دل چسپ ہے، کیوں یہ پوری وضاحت کے ساتھ ان کی تنقید کی افادی بنیادوں کو سامنے لاتا ہے۔
مولانا احمد رضا خان نے بتایا کہ ہمارے عہد کے متمول اشراف کے مسرفانہ اور لایعنی طرز عمل کو جاننے کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں ذرہ برابر جسمانی مشقت کے روادار نہیں۔ جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں: "یہ مال دار شکاری اس قدر خود پسند ہیں کہ طعام ولباس کی بنیادی ضروریات کی خریداری کے لیے گھر سے نکلنے کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں۔ یہ اس قدر آرام طلب ہیں کہ نماز پڑھنے کے لیے دھوپ میں دس قدم تک چلنے سے گریز کرتے ہیں"21۔
خان صاحب طنز وتضحیک کے پیراے میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں: "یہ سوچنا لغو ہے کہ ایسے لوگ طعام کے حصول کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑیں گے، اور تپتے صحراؤں کی چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں پیدل چلیں گے اور رکیں گے، جہاں انھیں ہر طرف سے گرم ہوا کے تھپیڑے پڑتے ہیں"22۔ اپنے قارئین کو ایک بدیہی بات سمجھاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ شکار سے کئی گنا آسان طریقے سے مثلا مقامی بازار سے مچھلی خرید کر وہ طعام کا حصول کر سکتے ہیں۔ لیکن شکار کے لیے جانے پر اصرار، باوجود یہ کہ اس سے زیادہ آسان طریقے سے طعام کا حصول ممکن ہو، حتمی پیمانہ ہے کہ ان مہمات کا اصل مقصد خوراک یا کسی اور فائدے کے بجائے تفریح اور عیاشی ہے۔ بلکہ اکثر شکار کیے جانے والوں جانوروں کو عام لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور شکار کرنے والے شاذ نادر اسے پکاتے اور کھاتے ہیں۔ ان تمام امور یہ بات یقینی ہو گئی کہ یہ شکار محض ایک کھیل کود ہے، اور لوگ جو یہ کھیل کھیلتے ہیں، انھیں اپنے بھوک کو مٹانے یا کسی اور ٹھوس مقصد کو پورا کرنے میں بمشکل کوئی دل چسپی ہوتی ہے۔
ان چیزوں کو ناجائز قرار دینے کے پیچھے خان کا بنیادی مقصد ایک ایسے اخلاقی نظام کی تشکیل تھا، جو فضول مشاغل، اسراف اور زندگی وفطرت کو کھیل کود اور تفریح جیسے غیرضروی مقاصد کا ذریعہ بنانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہو۔ ایک اور بات یہ، اگر چہ خان صاحب نے اسے اس انداز میں بیان نہیں کیا، لیکن انھوں نے 'بامقصد' شکار پر جو زور دیا، اس سے جانوروں کی حفاظت اور تقدس اور غیر ضروری انسانی تسکین کے لیے اس کی پاے مالی ناجائز قرار پائی۔ اگرچہ یہ کسی طرح سے جانوروں کے ایک حقوق کے کارکن کا موقف نہیں، تاہم یہ نوٹ کرنا دل چسپ ہوگا کہ خان صاحب کے اختیار کردہ ایک ٹھیٹھ روایتی فریم ورک میں اس طرح کے موقف کے لیے کچھ گنجائش نکل آتی ہے۔
شادی بیاہ کی رسومات پر تنقید
شادی بیاہ کی رسموں پر بے رحم تنقید کے حوالے سے مولانا احمد رضا خان اپنے سب سے بڑے حریف مولانا اشرف علی تھانوی سے انتہائی مشابہت رکھتے ہیں۔ مولانا تھانوی کی طرح (آٹھویں باب کا آخری حصہ دیکھیے) خان صاحب کے نزدیک بھی ہندوستانی شادیاں تمام مکروہ اعمال کی گڑھ تھیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات کسی بھی رسم سے زیادہ عوام میں رائج تمام اخلاقی وباؤں کو ایک ساتھ جمع کرتی ہیں۔ ان میں فضول خرچی، مرد وزن کا آزادانہ اختلاط، جھوٹی شان وشوکت، معاشی دیوالیہ پن اور بعض اوقات قابل اعتراض رسمیں، اور غیرمسلموں (بالخصوص ہندؤوں) کے تہواروں کی تقلید شامل ہیں۔ یہ سب مفسدات عوام کے تقوی اور آخرت کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی حیثیت اور طاقت کو بھی گھٹاتے ہیں23۔
شادی بیاہ کی جس سرگرمی پر خان سب سے زیادہ برافروختہ ہیں، وہ گانا بجانا اور موسیقی کی محفلیں ہیں، جن میں عام طور پر عورتیں شرکت کرتی ہیں۔ ان تقریبات میں جو گانے گائے جاتے ہیں، وہ عام طور پر فحش اور بازاری جملوں پر مشتمل ہوتے ہیں، اور اس میں غیر شرعی جنسی رویوں کا بار بار ذکر آتا ہے۔ بجاے شرمندہ یا نادم ہونے کے وہاں پر جمع عورتیں بمشکل اپنے زوردار قہقہوں کو روک پاتی ہیں۔ جوان اور غیر شادی شدہ لڑکیاں یہ بے ہودہ تماشے اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں، اور اس سے اثر لیتی ہیں، جب کہ "بے شرم، بے پروا، بے دماغ اور نکمے مرد" ان کے خلاف ایک لفظ نہیں کہتے، اور بغیر کسی رکاوٹ کے ان سب کو چلنے دیتے ہیں24۔ مولانا احمد رضا کے تجزیے کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں نے یہ قابل اعتراض عادتیں ہندؤوں سے سیکھی ہیں۔ "یہ ناپاک اور ملعون رسمیں بے تمیز گدھوں اور احمق جاہلوں نے ملعون ہندو شیطانوں سے سیکھی ہیں"25۔ اس عبارت میں خان صاحب کے الفاظ سے واضح ہے کہ انھیں ان رسموں سے کس قدر شدید نفرت تھی۔
ایک بار پھر ان کے احتجاج میں مرکزی نکتہ 'غیروں' کی اندھی نقالی ہے۔ میری پیش کردہ سابقہ مثالوں کی طرح بعینہ یہاں بھی خان صاحب کو جو اصل خدشہ لاحق ہے، وہ روزمرہ معاشرت کے اقدار کی تشکیل ہے۔ اس خدشے کی واضح نشانی یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف ان 'مفسد اعمال' کی نشان دہی کی، جو ان کی نظر میں ہندوستانی شادیوں میں سرایت کر چکے تھے، بلکہ انھوں نے واضح ہدایات بھی دیں کہ اگر کوئی شادی بیاہ میں شرکت کرتے وقت ان اعمال کو دیکھے، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ جوں ہی مہمانوں کو شادی میں شرکت کے دوران بداخلاقی کے مظاہر جیسے فحش گانوں کے بارے میں پتا چلے، انھیں چاہیے کہ فوراً اٹھ کھڑے ہو جائیں، اور وہاں سے باہر چلے جائیں۔ انھوں نے پرزور انداز میں کہا: "اپنی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو ایسی فحش تقریبات میں شرکت پر مجبور نہ کریں"26۔ بلکہ اصل تو یہ ہے کہ لوگ ایسی شادیوں میں سرے سے شرکت نہ کریں۔
لوگ انھیں اپنی خوشیوں کا دشمن نہ سمجھ بیٹھیں، اس لیے انھوں نے واضح کیا کہ وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں خوشی منانے کی تمام صورتوں کے مخالف نہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں، جب تک شریعت کی حدود پائمال نہ کی جائیں۔ تو شرعاً جائز شادی کی صورت کیا ہوگی؟ شریعت کی نظر میں قابل قبول شادی بیاہ کی تقریب کے لیے نمونہ پیش کرتے ہوئے خان صاحب رسول اللہ ﷺ کے دور میں رائج رسموں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ شادی کی خوشیاں منانے کے لیے دف بجانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی یہ رائج تھا۔ یا مثلاً مدینہ میں عام رواج تھا کہ دولہن کے گھر میں پہنچنے پر سادہ اشعار کہے جاتے تھے جیسے: "ہم آپ کے ہاں آئے ہیں، ہم آپ کے ہاں آئے ہیں، اللہ ہمیں بھی زندگی دے، اور تمھیں بھی" (أتيناكم أتيناكم فحَيَّانا فحيَّاكم)27۔ خان صاحب کے نزدیک ان مناسب کلام میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن جلد ہی وہ یہ اضافہ کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اس قدر آزادی بھی مناسب نہیں۔ کیوں؟ اس لیے اگر ہندوستانی عورتوں کو اس کی اجازت دی جائے، تو کوئی امید نہیں کہ وہ ان کے لیے مقررہ حدود کی پابندی کریں گی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ شادی بیاہ کے دوران اس قسم کے کسی بھی عمل پر مکمل پابندی عائد کی جائے، تاکہ "سرے سے فتنے کا دروازہ ہی بند کیا جائے"28۔
شادیوں سے "بازاری اور فاحشہ فاجرہ" عورتوں جیسے رنڈیوں اور ڈومنیوں(نیچ ذات کی گانا گانے والی لڑکیاں) کے نکال باہر کرنے کے سلسلے میں مولانا احمد رضا خان بطورِ خاص بے لچک تھے29۔ اس بابت ان کے استدلال سے ان کے نازک طبقاتی شعور کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ ایسی خواتین سے نہ صرف اس وجہ سے دور رہنا چاہیے کہ ان کے لیے شرعی حدود کی پاس داری ناممکن ہے، بلکہ اس سے زیادہ اہم تر یہ ہے کہ وہ دیگر 'شریف زادیوں' کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ خان صاحب کے اپنے الفاظ میں: "اخلاقی طور پر کم زور اور خراب خواتین کو شریف زادیوں سے دور رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ (ان خواتین کی) صحبتِ بد زہرِ قاتل ہے"۔30 وہ اپنی بات کو اس ادعا پر ختم کرتے ہیں، جس سے ان کے تصوّرِ صنف کی واضح تصویر سامنے آتی ہیں: "خواتین شیشے کی طرح ہیں، اگر وہ ٹوٹ جائیں، تو تباہ ہو جاتی ہیں"31۔ خان صاحب کی واعظانہ بے چینی طبقے اور صنف کو یک جا کرکے واضح انداز میں سامنے لاتی ہے۔ اگر چہ تمام عورتوں کی یہ صلاحیت مشکوک ہے کہ وہ شریعت کی حدود کی پاس داری کر سکیں، تاہم نیچ طبقات اور ذاتوں کی عورتوں میں یہ امکان بھی ہے کہ وہ دیگر عورتوں کو خراب کریں۔ وہ اخلاقی اور سماجی نظام کے استحکام کے لیے اساسی خطرہ ہیں، ایک ایسا نظام جو عورت کے جسم کی پاکیزگی میں جھلکتا، اور اسی پاکیزگی سے اسے استحکام ملتا ہے، ایک ایسا جسم جو شیشے کی طرح نازک ہے، جو ہمیشہ موت اور بربادی کو قبول کرتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے اقدار وضع کرنے میں مولانا احمد رضا خان نے کوشش کی کہ اس بھورے آدمی کا کردار ادا کرے، جو بھوری عورت کو دوسری بھوری عورت سے بچاتا ہے۔
اور شادی بیاہ کی رسموں پر خان صاحب کی تنقید کے حوالے سے آخری بات: ہندوستانی مسلمانوں کی شادی بیاہ پر ان کی تنقید کے اخلاقی اور قانونی پہلوؤں کا ایک گہرا ربط سماجی اور معاشی زوال سے بھی تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شادی بیاہ کے رسم ورواج پر لوگوں کا شدید اصرار معاشی بدحالی پر منتج ہوا ہے۔
اخلاقی اور سماجی ومعاشی زوال کے درمیان موازنے کی بہترین عکاسی مولانا احمد رضا خان کے ان الفاظ میں ہوئی ہے: "کچھ لوگ شادی بیاہ کی رسموں پر ایسے فریفتہ ہو گئے ہیں کہ اگر انھیں پورا کرنے کے لیے انھیں گناہ کرنا پڑے، تو بھی وہ دریغ نہیں کرتے، لیکن رسم کو بہرصورت نہیں چھوڑیں گے۔ وہ بھاری شرح سود پر قرضے لیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں اپنی جاے داد اور گھروں تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں"۔ یہی وہ فضول خرچیاں ہیں جس نے (ہندوستانی) مسلمانوں کی جاے دادوں اور اثاثوں کو برباد کر ڈالا ہے"32۔ جیسا کہ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے دیوبندی حریفوں کی طرح اخلاقی اور معاشی نظام ناقابل علیحدگی ہیں۔ مزید برآں جس قدر کوئی شخص خدائی قانون کو پائمال کرکے اخروی زوال کا شکار ہوتا ہے، اسی قدر اس کی دنیوی طاقت اور فلاح وبہبود کو بھی زوال ہوتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں میرا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کافی شواہد جمع کرکے (اس کے علاوہ مزید بہت سے شواہد ہیں) اس تصور کو رد کروں کہ مولانا احمد رضا خان کے پاس دینی یا اخلاقی اصلاح کا کوئی معقول پروگرام نہیں تھا۔ اب یہ واضح ہو گیا ہوگا کہ دیوبندی بریلوی اختلاف کو اصلاح پسندوں یا مخالفینِ اصلاح کے درمیان بحث ومباحثے سے تعبیر کرنا فکری اور تجربی دونوں اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ خان صاحب اور ان کے دیوبندی حریفوں میں شدید اختلاف کے باوجود یہ امر مشترک تھا کہ وہ عوام کی اصلاح کو ایک فوری نوعیت کا تقاضا سمجھتے تھے۔ مزید برآں نہ صرف یہ کہ ان کی تنقید کا موضوع ایک جیسا تھا (جیسا کہ شادی بیاہ کی صورت میں)، بلکہ صنف، طبقے اور شریعت کے محافظین کی حیثیت سے اپنے کردار کے بارے میں ان کا تصور بھی تقریباً ایک جیسا تھا۔ اگر چہ دیوبندیوں کی طرف بعض رسموں جیسے مولد کی مخالفت کو خان صاحب نے پرزور انداز میں رد کیا، لیکن وہ خود بھی عوامی رسموں اور روزمرہ کی عادات کی تردید میں بعض اوقات ان سے بھی زیادہ کرخت تھے۔ وہ کوئی آزاد منش صوفی نہ تھے۔
اس کے برعکس شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی عوامی صلاحیت کے بارے میں ان کی راے بھی زیادہ خوش گمانی پر مبنی نہ تھی، اور یہ ان کے مذہبی تصور میں مرکزی نکتہ تھا۔ اگر ان کے دیوبندی مخالفین سے ان کا موازنہ کیا جائے، تو وہ بھی ہندوستان کے عام مسلمانوں کی روزمرہ زندگی کی کارکردگی سے اگر ان سے زیادہ نہیں تو ان سے کم بھی غیرمطمئن نہ تھے۔ اور جیسا کہ میں نے دکھایا ہے انھوں نے اس عدم اطمینان کا برملا اظہار کیا ہے، اور پورے لگن اور جذبے سے اصلاح کی ایک ایسی حکمت عملی وضع کی ہے، جو ان ان مسائل کو حل کرے۔
مذہبی تشکیل کے سیاسی تصورات پر ایک نظر
لیکن مولانا احمد رضا خان اور علماے دیوبند کے بعض پروگراموں اور مفروضوں کے درمیان مشترکات سے ہمیں ان کے درمیان موجودہ اختلافات کی شدت اور حیثیت کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ اگر چہ یہ دونوں گروہ مثلاً شادی کے عوامی رسموں کے ایک جیسے ناقدین ہو سکتے ہیں، لیکن فقہ، عقائد اور رسمی اعمال کے باہمی تعامل کے حوالے سے ان کی تفہیمات ایک دوسرے کے یک سر مخالف تھیں۔ اس اختلاف میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ کسی سماج کی اخلاقی بھلائی کے تصور کے ساتھ قانون الٰہی کے تعامل کی شکل کیا ہو؟ خان صاحب کے نزدیک کسی سماج کی اخلاقی بھلائی کا تصور بڑی حد تک خدائی منشا کی عکاس ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث: جو مسلمانوں کو بھلا لگے، وہ اللہ کے ہاں بھی بھلا ہے (ما رآه المسلمون حسناّ فهو عند الله حسنٌ)33 کا مفہوم یہی ہے۔ منشاے الٰہی اورسماج کی عملی زندگی میں اکثر وبیش تر ہم آہنگی ہوتی ہیں، اگر چہ بعض اوقات ان میں عدم مطابقت کا پہلو بھی ہوتا ہے، جو فوری توجہ اور اصلاح کا طالب ہوتا ہے۔ اس لیے جب کسی سماج کا عرف وعادت صراحتاً شریعت کے مخالف نہ ہو (یہ بہت اہم شرط ہے)، اس وقت تک اسے علما کی مکمل نظرثانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علما کا کام یہ ہے کہ وہ قانونِ الہی کی مقررکردہ مستقل اقدار کی ابدیت کا تحفظ کریں، بجاے اس کے کہ وہ ان اقدار کو پائ مال کریں، اور ان کی نظر میں دیوبندی اس جرم کے مرتکب ہیں۔ خان صاحب نے اس اصولی موقف پر زور دیا، بالخصوص ایسی رسموں کے معاملے، جن سے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہوتی ہو مثلاً عید میلاد النبی۔
لیکن میں نے اس باب کے گزشتہ حصے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رائج اقدار کے تسلسل پر زور دینے کا مطلب عوام کو کھلی چھوٹ دینا نہیں تھا کہ وہ جو چاہیں کریں۔ یہاں پر اہم نکتہ ان کا یہ اصولی استدلال ہے کہ سماج کے دینی اعمال اور رسموں میں شریعتِ الہی کی مقرر کردہ اقدار کا تسلسل ضروری ہے۔ اور یہ استدلال ایک مراتبی کونیات (hierarchical cosmology) پر مبنی تھا، جو تمام مخلوقات میں سب سے برتر ہستی کی حیثیت سے رسول اکرم ﷺ کے مقام ومرتبے کا دفاع کرنے کے لیے پرجوش انداز میں متحرک تھا۔ یہ استدلال عوام کے لیے نرمی یا لچک کی بنیاد پر نہیں تھا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ آخری تین ابواب میں روایت واصلاح کے دو متوازی تصورات کا بنیادی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ خان صاحب اور بریلوی مسلک کے برعکس اکابر دیوبند کے اصلاحی ایجنڈے کا زور تسلسل کے بجاے مکمل تبدیلی پر تھا۔ ان کی نظر میں اصلاح کا مطلب کسی سماج کی عادات کی مکمل تبدیلی اور اس کے تسلسل کو روکنا ہے۔ شاہ محمد اسماعیل اور علماے دیوبند نے ماضی کی ان عادتوں اور رسموں کو ترک کرنے کی دعوت دی، جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) کی مکمل انفرادیت کے لیے خطرہ تھیں۔
مولانا احمد رضا خان نے روایت اور اصلاح کا ایک متوازی تصور پیش کیا۔ ان کے نزدیک اصلاح کا بنیادی مقصد مستند روایات کا تحفظ ہے، نہ کہ ان کی از سرِ نو ایجاد۔ انھوں نے بتایا کہ عملی زندگی کو مکمل تبدیل کرنے کا دیوبندی جذبہ بے جا اور غیرمعتدل ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے دیوبندی حریفوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ان رائج رسوم وروایات کو سبوتاژ کر رہے ہیں، جو سماج کو اخلاقی رہ نمائی فراہم کرتے ہیں، اور حضور ﷺ اور دیگر مثالی دینی شخصیات کی تقدیس کرتی ہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ رسوم کو بہت سی خرابیوں سے پاک کرنے کے بہانے شاہ محمد اسماعیل اور علماے دیوبند نے عوام پر جائز نیک اعمال کا دروازہ بند کیا۔ ایسا کرنے سے وہ قانونِ الہی میں تحریف کے مرتکب بھی ہوئے، کیوں کہ انھوں نے ایسے اعمال سے روکا جس سے خدا نہیں روکا ہے، اور جنھیں صدیوں سے واجب الاحترام مسلمان علما جائز کہتے آئے ہیں۔ اس لیے خان صاحب کی نظر میں علماے دیوبند نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی تعظیم پر مشتمل رسموں کو ناجائز قرار دیا، بلکہ انھوں نے موقر علما کے فیصلوں کی حجیت پر سوال اٹھا کر ان کے استناد کو بھی چیلنج کیا۔ المختصر انھوں نے اپنے دیوبندی مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ شریعت میں اس طرح سے تحریف کر رہے ہیں، جس سے اس کا تسلسل مجروح ہوتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ کی امتیازی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔
بلکہ میرے پیش کردہ تجزیے سے مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین کے درمیان میں جو بنیادی اختلاف راے سامنے آتا ہے اس کا ماحصل اس باریک نکتے پر اختلاف ہے کہ اس صورت میں کیا لائحۂ عمل اختیار کیا جائے جب رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے کیے جانے والے جائز اعمال میں فساد واقع ہو جائے؛ اس طریقے میں یا اس نیت میں، جس کے ذریعے عوام ان (جائز اعمال) میں شرکت کرتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کی نظر میں ایسی صورتِ حال میں ان اعمال کو بالکلیہ مسترد کرنے کے بجاے علماے دین کو چاہیے کہ ان میں پیدا ہونے والے فساد کی اصلاح اور تصحیح کریں۔ دوسرے لفظوں میں خان صاحب کے نزدیک ایسے اعمال کو ناجائز نہیں ٹھہرانا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کی تعظیم اور اس طرح کے دیگر پاکیزہ مقاصد کے حصول کے لیے ہوں۔ اس کے برعکس علماے دیوبند کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) کے لیے ممکنہ خطرے کا ازالہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم یا نیکی کی کسی بھی دوسرے غیر واجب عمل پر فوقیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک عوام کے طرز عمل کی خرابی اس قدر مہلک ہے کہ اس کی بحالی یا اصلاح کا کوئی امکان نہیں، اس لیے ان اعمال کو ناجائز قرار دینا ہی واحد مناسب حل ہے۔ اس باریک اصولی اختلاف کو فقہ اور تصوف کے درمیان بنیادی اختلاف کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، نہ سخت گیر/لچک دار، اصلاح پسند/مخالفِ اصلاح اور جدت پسند/قدامت پسند جیسےسطحی تقابلات سے اسے سمجھا جا سکتا ہے، جو اگر چہ سمجھنے میں آسان ہیں، لیکن نتیجتاً انتہائی گمراہ کن ہیں ۔
اس نکتے کو مزید پھیلاتے ہوئے میں مذہبی تشکیل کے سیاسی نظام(political theology) کے اس تصور کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، جو اس کتاب کے اکثر حصے میں کار فرما ہے۔ بریلوی اور دیوبندی اکابر کی برپا کردہ متحارب تحریکوں کی اساس سیاسی استدلالات اور مفروضات تھے۔ اگر چہ یہ استدلالات اور مفروضات پوری وضاحت کے ساتھ مُرتَّب نہیں کی گئی ہیں۔ سیاست سے میری مراد ریاست یا انتخابی سیاست کے بارے میں ان کے تصورات نہیں بلکہ فرد، سماجی نظام اور فرد اور معاشرے کے محافظین کی حیثیت سے ان کے مذہبی استناد کے درمیان تعامل کو وہ کیسے سمجھتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ دیوبندی بریلوی کش مکش سماج کے ساتھ فرد کے تعلق کے تصورات میں کار فرما اختلافات کو سامنے لائی۔ دیوبندی تصوراتِ اصلاح میں فرد کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ میں روزمرہ کی صورتِ احوال اور سماجی دباو کو رد کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ فرد معاشرے سے فاصلہ رکھتے ہوئے اسے مکمل تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔
توحید کی تقویت اور تحفظ اور حال کو عہدِ نبوی کے مطابق ڈھالنا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ فرد کے اندر آئے روز کے فسادات سے آلودہ سماجی نظام کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کی جائے۔ نتیجتاً اس امر کی ضرورت ہے کہ ایسے دین دار افراد پیدا کیے جائیں، جو شریعتِ الہیہ سے واقف ہوں، اور فاسد سماجی نظام کی اصلاح کریں۔ فرد ایک واسطہ ہے، جو ایک ایسی دنیا پر اثرانداز ہوگا، جس سے وہ فاصلے پر رہے گا، اور جو بیمار اور فاسد دنیا کا علاج شریعتِ الٰہیہ کی جراثیم کش دوا سے کرے گا۔ ایسے تصورِ جہاں میں مذہب کی حدود سماج کے تغیر پذیر حالات سے باہر خارج میں وجود رکھتی ہیں۔ مذہبی احکام ایک قادرِ مطلق ذات کی طرف سے آتے ہیں، جو تاریخ کی افراتفری سے ماورا ہے۔ مذہب ایک ایسی خدائی طاقت اور عہد نبوی کی نمائندگی کرتا ہے، جو دین دار افراد کے توسط سے خارجی دنیا سے متصادم ہے۔
اور بدعت مذہب کے اسی تصور کو خارجی دنیا سے آنے والے دباو اور نظاموں سے گڈ مڈ کرنا ہے، ایسی منہیات، عادات اور دباو جن کا سرچشمہ سماج ہے، اور جسے دیوبندی خود ساختہ شریعت کہتے ہیں۔ لیکن یہ تصور تضادات سے بھرپور ہے۔ اکابر دیوبند ایک طرف فرد کو یہ ذمہ داری سونپتے ہیں کہ وہ سماج سے فاصلے پر رہ کر سماج کی بنائی رسم ورواج کو رد کرے، اور دوسری طرف وہ عوام کو مال مویشی قرار دیتے ہیں، جنھیں علما کی قیادت اور رہ نمائی پر انحصار کرنا چاہیے۔ دین دار فرد کے لیے اس وقت خارجی دنیا میں خدائی شریعت کی تنفیذ ممکن ہے، جب وہ ایک عالم کے مذہبی استناد کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ یہ امکان علما کی مداخلت اور رہ نمائی کے بغیر ناممکن ہے۔
مولانا احمد رضا خان اور ان کے بریلوی پیروکار اس تصورِ جہاں کے بہت سے پہلوؤں سے متفق ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ وہ بھی دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی عوامی صلاحیت سے خاصے غیر مطمئن تھے۔ تاہم ان کی فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرد اور سماج کے درمیان علیحدگی کے اس حد تک قائل نہ تھے۔سب سے اہم بات یہ کہ سماج میں تمام تر خرابیوں کے باوجود سماجی رسوم ہی وہ بنیادی ذریعہ ہیں جو مثلاً عید میلاد النبی ﷺ جیسی رسموں کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی یاد کو زندہ وتابندہ رکھتی ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سماج سے گہرا ربط رکھتے ہیں، جس کی بہترین عکاسی میلاد کے وقت ان کی موجودگی سے ہوتی ہے۔ میلاد کے دوران جب نبی اکرم ﷺ کی شان میں مدحیہ قصائد پڑھے جاتے ہیں، تو وہ وہیں موجود ہوتے ہیں۔ دین دار فرد کو چاہیے کہ وہ عالم کی رہ نمائی سے روزمرہ زندگی کے نشیب وفراز کی اصلاح ونظرثانی کرے۔ لیکن یہ اصلاح سماج میں رائج دینی فوائد کے حامل رسموں کی بیخ کنی کا ذریعہ نہ ہو، اور اس عمل میں بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی تقدیس پر مشتمل امور کو بند نہ کیا جائے۔ سماج کے ساتھ انسانی تعامل ہی کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی برتر ی دین کی امتیازی علامت کی حیثیت سے قائم، نافذ اور جاری ہے۔
علما کا مذہبی استناد ایک ایسی سماجی ساخت کے تحفظ سے مربوط ہے، جس کا کام جذباتی اور بیانی انداز میں رسول اللہ ﷺ کے وجودی امتیاز کو برقرار رکھنا ہے۔ اور یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب فرد کا رخ سماج کی طرف ہو: فرد اگر چہ سماج کے کاموں پر غیر مطمئن ہو، تاہم اس سے جڑا ہوا ہو۔ اسی طرح قانون، زمنیت اور تاریخ کی متوازی تفہیمات جنھوں نے بریلوی دیوبندی مخاصمت کی تشکیل کی، وہ ایک اخلاقی نظامِ سیاست کے متوازی تصورات پر مبنی تھیں۔ بدعت کے معنی اور حدود پر ان کے اختلاف کی تہہ میں کارفرما ایسے سیاسی نظریات تھے، جو فرد اور سماج کے درمیان تعلق اور اس تعلق کو متوازن رکھنے کے لیے علما کے مقام کو واضح کرتے تھے34۔
بدعت کی حدود پر خان صاحب اور علماے دیوبند کے درمیان سنجیدہ اختلافات کے باوجود خان نے ان کی تکفیر اس بنیاد پر نہیں کی۔ اس فتوے کی ایک خاص وجہ تھی، اور وہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب سے متعلق علماے دیوبند کی متعدد متنازعہ عبارات تھیں۔ یہ بحث علم، حاکمیت اور نبوی اقتدار کے درمیان تعلق پر متوازی نظریات سے وجود میں آئی۔ اس بحث کا ایک گہرا تجزیہ ان مسلکی حساسیتوں کی تفہیم کو مزید بہتر کرے گا، جنھوں نے روایت کے دیوبندی اور بریلوی تصورات کو تقسیم کیا۔ اگلے باب میں یہی موضوع زیر بحث رہے گی۔
حواشی
- یاسین اختر مصباحی، امام احمد رضا: ردِّ بدعات ومنکرات (کراچی: ادارۂ تصنیفاتِ امام احمد رضا، 1985)، 529۔
- ایضاً۔
- ابن الہمام، شرح فتح القدیر (بیروت: دارالفکر، 1900)، بحوالہ الفتاوی الرضویہ (گجرات: مرکزِ اہل سنت، 2006) میں إقامة القيامة على طاعن القيامة لنبي تهامة، 26: 530۔
- احمد رضا خان، إقامة القيامة، 531۔
- فیصل دیوجی، Gender and the Politics of Space: The Movement for Women’s Reform in Muslim India, 1857 – 1900، ساوتھ ایشیا: جرنل آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز 14، نمبر 1 (1991): 150۔
- ا۔ خان، إقامة القيامة، 536۔
- ایضاً، 534۔
- ایضاً، 536۔
- ایضاً، 467 – 68۔
- ایضاً، 468۔
- ایضاً، 534 – 35۔
- ایضاً، 535۔
- ایضاً، 459۔
- ایضاً، 459 – 60۔
- ایضاً، 460۔
- ایضاً۔
- شیر علی ترین، Contesting Friendship in Colonial Muslim India، ساؤتھ ایشیا: جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈیز 38، نمبر 3 (اگست 2015): 419 – 34۔
- دیکھیے ایضاً۔
- ایضاً، 426 – 32۔
- مصباحی، امام احمد رضا، 540۔
- ایضاً۔
- ایضاً۔
- ایضاً، 543 – 49۔
- ایضاً، 544۔
- ایضاً۔
- ایضاً، 545۔
- ایضاً۔
- ایضاً، 546۔
- ایضاً؛ یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ انیسویں صدی کے اوخر میں رنڈی کی اصطلاح ناچنے والی لڑکی کے لیے استعمال ہوتا تھا، اور آج کل یہ قحبہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
- ایضاً۔
- ایضاً۔
- ایضاً۔
- الحاکم النیشاپوری، المستدرك على الصحيحين في الحديث (بیروت: دارالفکر، تاریخ اشاعت ندارد)، 3 : 78، بحوالہ: ا۔ خان، إقامة القيامة، 513۔
- میں ڈیوڈ گلمارٹن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اس تصور کے امکان کی تجویز دی۔