(عالمی ادارے اور مغربی قوتیں مسلم ممالک کے نظام اور معاشرت میں کس قسم کی تبدیلی چاہتی ہیں؟ اس کے بارے میں وقتاً فوقتاً ’’الشریعہ‘‘ میں عالمی پریس کے حوالے سے معلومات پیش کی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں روزنامہ جرأت لاہور نے ۵ نومبر ۱۹۹۹ء کو برادر مسلم ملک تیونس میں ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے جناب محمد ظہیر الدین بھٹی کی مندرجہ ذیل رپورٹ شائع کی ہے جس سے مسلم ممالک کے لیے مغربی اداروں کے تجویز کردہ عزائم اور ایجنڈے کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، اور ہمارے ہاں این جی اوز ان حوالوں سے جو کام کر رہی ہیں اس کے مقاصد بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ ادارہ)
’’شمالی افریقہ (جسے مغرب بھی کہا جاتا ہے) کے ایک اہم ملک تیونس میں آزادی کے بعد پہلے صدر حبیب بور قیبہ نے ۳۰ سالہ عہدِ حکومت میں کمال اتاترک کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اسلامی تہذیب و تمدن کے اس مرکز (تیونس) کو سیکولر خطوط میں ڈھالنے کے لیے ہر طرح کے اقدامات کیے۔ ۱۹۸۷ء میں زید بن علی نے انہیں برطرف کر کے اقتدار سنبھالا، زید بن علی سے ابتدا میں اچھی توقعات تھیں لیکن پھر سب کچھ اسی طرح ہونے لگا۔ اسلامی تحریک کے افراد مظالم کا شکار ہوئے۔ آج بھی ہزاروں مرد اور عورتیں جیل میں ہیں۔ تحریک کے رہنما راشد الغنوشی جلاوطن ہیں، انسانی حقوق مفقود ہیں۔ لیکن جموریت کا لبادہ اوڑھے رکھنے کے لیے انتخابات کا ڈرامہ شاید مجبوری ہے، مگر جمہوریت کی عملی شکل، ریاستی طاقت سے عوام کو کچلنا اور ان کی مرضی کے خلاف حکومت سے چمٹے رہنا ہے۔ آپ دیکھیں کہ مسلمانوں کی ۹۵ لاکھ آبادی کے اس ملک کے شہریوں کے ساتھ ان کے مسلمان حکمرانوں نے کیا کچھ کیا ہے۔
تیونس ۲۰ مارچ ۱۹۵۶ء کو فرانسیسی تسلط سے آزاد ہوا۔ ۱۳ اگست ۱۹۵۶ء کو سرکاری ضابطہ قوانین جاری ہوا جس پر عملدرآمد یکم جنوری ۱۹۵۷ء سے شروع ہوا۔ اس ضابطے کے زیادہ تر قوانین شریعتِ اسلامی کے بالکل خلاف و متضاد بلکہ اس سے متصادم تھے۔ آزادی کے بعد سے اسلامی نظام عملاً معطل چلا آ رہا ہے۔ اب تو اسلام کے اصول و فروع، احکام و اخلاق اور آداب سب کچھ شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ یہاں پر شواہد پیش کیے جاتے ہیں:
شرعی عدالتوں کا خاتمہ اور واحد عدالتی نظام
ملک میں شرعی عدالتوں کی تنسیخ کا کام آزادی کے بعد ہوا، انہیں عام عدالتوں میں ضم کر دیا گیا۔
جامعۃ الزیتونہ کے اسلامی تشخص کا خاتمہ
جامعۃ الزیتونہ کا شمار عالمِ اسلام کی قدیم ترین اسلامی یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ اسے اموی گورنر عبد اللہ بن الحجاب نے ۱۱۴ھ (۷۳۲ء) میں تعمیر کروایا تھا۔ یہ جامعہ پورے شمالی افریقہ میں اسلام اور عربی زبان کی حفاظت کا قلعہ رہی ہے، مگر اب اس کا اسلامی تشخص ختم کر دیا گیا ہے۔ مخلوق تعلیم رائج ہے۔ جمعہ کے بجائے اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے۔ موسیقی اور رقص و سرود کے کلبوں سے نمائندگی کی جاتی ہے۔ اس کا اپنا ایک ریڈیو اسٹیشن ہے جہاں سے جامعہ میں گانے نشر کیے جاتے ہیں۔ طالبات کے دوڑ کے مقابلے مردوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ گانے بجانے کی محفلوں کے لیے گلوکار مردوں اور عورتوں کو باقاعدہ مدعو کیا جاتا ہے۔ رمضان میں بھی یہ پروگرام ہوتے ہیں، اور ان محفلوں میں شرکت کی دعوت ادارے کے ڈائریکٹر کی طرف سے دی جاتی ہے۔ جامعہ میں طلبہ کی تعداد فرانسیسی عہد میں ۳۰ ہزار سے زیادہ ہوتی تھی۔ آزادی کے دور میں کل تعداد ۶۵ ہزار ہے۔ ان میں ۸۵ فیصد طالبات ہیں جن کے لیے بے حجاب ہونا ضروری ہے۔ نیز جامعہ میں موجود تیراکی کے تالاب میں تیراکی کا مخصوص لباس زیب تن کر کے نہانا لازم ہے۔
شرعی اوقاف کا خاتمہ
جامعہ زیتونہ کے طلباء اور علماء کے لیے وقف کردہ تمام شرعی اوقاف ضبط کر لیے گئے ہیں۔ اسی طرح ملک کی دیگر تمام مساجد اور خیراتی اداروں کے تمام اوقاف، زمینیں، جائیدادیں ختم کر دی گئی ہیں۔ کئی چھوٹی مسجدوں کو گوداموں میں اور سٹوروں میں بدل دیا گیا ہے۔
رمضان کے روزوں سے نفرت
حکومتِ تیونس رمضان کے روزے رکھنے کو بہ نظر ناپسندیدگی دیکھتی ہے کہ روزہ رکھنے سے پیداوار کم ہو جاتی ہے اور ملکی ترقی اور پیشرفت میں رکاوٹ پڑتی ہے۔
قرآن اور رسول اکرمؐ پر الزامات و اتہامات
سابق صدر حبیب بور قیبہ نے قرآن پر الزام لگایا کہ اس میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اس نے (معاذ اللہ) سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ مبارک میں توہین کی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے تیونس سے شائع ہونے والا اخبار ’’صحیفۃ الصبح‘‘ مورخہ ۲۱ مارچ ۱۹۷۳ء۔
شریعتِ اسلامی پر نقص کا الزام
سابق صدر بور قیبہ نے اپنے ایک خطاب میں عورت و مرد کی مساوات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم عورتوں کی ترقی میں حائل سب رکاوٹوں کو دور کر دیں گے اور ہر سطح پر مرد و زن میں کامل مساوات قائم کریں گے۔ قرآنی حکم کہ ’’میت کے ترکے میں ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے‘‘ کی رکاوٹ کو بھی دور کر کے دم لیں گے۔ ہم اس مسئلے کے حل کے لیے اجتہاد سے کام لیں گے تاکہ شرعی احکام کو زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مجلہ ’’الدستور‘‘ شمارہ ۵۸۷ مورخہ ۸ اگست ۱۹۸۳ء)
متبنّٰی بنانے کی اجازت
قرآنِ حکیم نے صاف الفاظ میں متبنٰی (منہ بولا بیٹا، بیٹی) بنانے کو ممنوع قرار دیا ہے مگر حکومتِ تیونس نے اس شرعی حکم کی مخالفت کرتے ہوئے ۴ مارچ ۱۹۵۸ء کو صادر ہونے والے اپنے قانون نمبر ۲۷ میں اسے جائز قرار دیا ہے۔ قانون کی ذیلی شق ۱۵ کی رو سے متبنیٰ کو قانونی بیٹے کے حقوق حاصل ہوں گے اور اس پر وہی فرائض عائد ہوں گے۔
خاندانی ڈھانچے کی تباہی
حکومت نے وقتاً فوقتاً ایسے قوانین جاری کیے ہیں جس سے تیونسی خاندان کا شیرازہ بکھر کے رہ گیا ہے۔ اس نے عورت کو اخلاقی باختگی کی اجازت دی ہے۔ بیوی کو اتنا قانونی تحفظ دیا ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے اخلاقی طرز عمل سے چشم پوشی کرتا ہے۔ اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو زنا کا مرتکب پا کر اسے پکڑ لیتا ہے تو یہ بیوی کے ذاتی معاملات میں مداخلت متصور ہو گا اور ایسا شوہر سزائے موت تک کا مستوجب ہو گا۔
معاہدہ نیویارک پر دستخط
حکومت نے شرعی احکام و قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے آزادی کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں جس کی رو سے عورت کے خلاف تمام امتیازی قوانین کالعدم ہیں۔ ایک غیر مسلم کو اجازت ہے کہ وہ ایک تیونسی مسلم خاتون سے شادی رچائے، اور اس کے لیے صرف ایک مرد و عورت کی گواہی کو کافی قرار دیا گیا ہے۔ تیونسی ارکانِ پارلیمنٹ نے بھی اس معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔
مسلم مستورات کے لیے شرعی لباس کی ممانعت
قانون نمبر ۱۰۸ کے مطابق مسلم عورت کے لیے تمام سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں میں شرعی لباس پہننا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اس لیے کہ اس سے تفرقہ پیدا ہوتا ہے، نیز یہ انتہا پسندی کی علامت ہے۔ باپردہ خواتین پر علاج کے لیے ہسپتالوں میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ محض نماز کی ادائیگی اور اسلامی لباس پہننے کے جرم میں خواتین کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا جاتا ہے اور سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔
سرکاری اداروں میں قائم مساجد کا انہدام
آرڈیننس نمبر ۲۹ کی رو سے تمام وہ مساجد منہدم کر دی جائیں گی جو پرائیویٹ اور پبلک محکموں میں قائم ہیں، جیسے یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کی مساجد، ہسپتالوں، بندرگاہوں، فیکٹریوں اور سرکاری محکموں میں موجود مساجد۔ مزدوروں اور ملازمین پر ڈیوٹی کے دوران نماز پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
قانونِ مساجد کا اجرا
اس قانون کی رو سے مسجدوں میں درسِ قرآن دینے اور املا کروانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ قانون پر عملدرآمد کے لیے حکومت نے پولیس کی ایک مخصوص جمعیت مساجد کی نگرانی پر مامور کر دی ہے۔ ہر نماز کے وقت مسجد صرف ۲۰ منٹ کے لیے کھلتی ہے، اس کے بعد پولیس کی یہ نفری مساجد کو نمازیوں سے خالی کرانے کی کاروائی کرتی ہے، نمازیوں کو باہر نکالتی ہے، تاخیر سے والوں کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیتی۔ اس قانون سے جامعۃ الزیتونہ بھی مستثنٰی نہیں ہے، البتہ اسے غیر ملکی سیاحوں کی آمد پر کسی وقت بھی کھول دیا جاتا ہے۔
مساجد میں نوجوانوں کی آمد
تیونس میں نوجوان نمازیوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ کسی ممنوعہ انتہا پسند تنظیم سے وابستہ ہیں، یا کسی دہشت گرد جماعت کے ارکان ہیں۔ حکومت کے اس رویے نے مسجدیں ویران کر دی ہیں اور نوجوان مسجدوں کا رخ کرتے ہوئے گبھراتے ہیں۔ مسلم نوجوان پولیس افسران کے سامنے عمداً اپنے دینی احساسات چھپاتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر وقت پر نماز ادا کرنا حکومت کے نزدیک انتہاپسندی اور دہشت گردی کی نشانی ہے، اور نوجوان سزا اور قید کے مستحق ہیں۔ پولیس صبح سویرے روشن ہونے والے گھروں کی بھی نگرانی کرتی ہے۔
اب حال یہ ہے کہ لوگ گھروں میں چھپ کر اندھیرے میں نماز پڑھتے ہیں۔ پولیس مشکوک نوجوانوں سے تفتیش کرتے وقت پہلا سوال یہ کرتی ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہے یا نہیں۔ جواب اثبات میں ہو تو اسے طرح طرح کی سزائیں دی جاتی ہیں اور اس سے یہ اعتراف کرایا جاتا ہے کہ وہ ’’اخوانجی‘‘ ہے، یعنی اخوان کی طرف سے منسوب ہے۔ تیونس میں اخوانجی ہونا گویا ایک گالی ہے۔ اگر نوجوان اپنے نمازی ہونے کی نفی کر دے، دین سے اعلانِ بیزاری کر دے، مگر پھر بھی پولیس کو اس کے بارے میں شک ہو تو اسے دینِ اسلام اور ذاتِ الٰہی کو گالی بکنے کا حکم دیتی ہے۔ مزید رفع شک کے لیے گلاس میں شراب ڈال کر پینے کے لیے کہتی ہے۔
اسلامی لٹریچر کی چھانٹی کے لیے کمیٹی کا قیام
ایک کمیونسٹ ملحد کی سربراہی میں اعلیٰ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اسلامی کتابوں کا جائزہ لیتی ہے اور پھر ایسی تمام کتابوں کو کتب خانوں سے ضبط کر لیا جاتا ہے، دکانوں اور نمائشوں میں ان کا رکھنا ممنوع ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ حکومت کے خیال میں اسلامی کتابیں انتہاپسندی کا منبع ہیں۔ مساجد میں قائم لائبریریوں کو بدعت قرار دے کر ختم کر دیا گیا ہے۔
رقص و سرود کے مخلوط کلبوں کا پھیلاؤ
شہروں، قصبوں اور دیہات میں رقص و سرود کے مخلوط کلب وسیع پیمانے پر قائم کر دیے گئے۔ نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو ان میں شمولیت کی ترغیب دی جاتی ہے اور والدین اور سرپرستوں کو شرکت سے روکنے پر ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
جادو، علمِ نجوم اور ٹونے ٹوٹکے کی ترغیب
عقیدۂ توحید کمزور کرنے اور لوگوں کے دلوں سے ایمان محو کرنے، گھروں کو اجاڑنے، بے حیائی اور بدکاری کے فروغ کے لیے حکومت جادو، ٹونے ٹوٹکے اور کہانت کے فروغ میں دلچسپی لیتی ہے۔ حکومت جادوگروں اور نجومیوں کو اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت دیتی ہے، اخبارات اور رسالوں میں ان کے اشتہارات شائع کیے جاتے ہیں۔
ثقافت کے نام پر بے حیائی و بدکاری کی حوصلہ افزائی
حکومتِ تیونس نے ایک ویڈیو فلم کو تیونس کے دورِ جدید کے لیے باعثِ فخر قرار دیتے ہوئے اس میں کام کرنے والوں کو سرکاری انعام اور ثقافتی میڈل سے نوازا ہے۔ اس میں عورتوں کے حمام میں ایک نوجوان کو دکھایا گیا ہے جو بالکل برہنہ عورتوں کے قابلِ ستر مقامات کو گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ مائیکل جیکسن گلوکار کا خود وزیر ثقافت نے ایئرپورٹ پر شاندار خیرمقدم کیا اور لوگوں نے اس کے پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
الحاد، زندقہ کا فروغ
پبلک مقامات، سرکاری مجالس، عام محافل اور ادبی نشریات میں الحاد و زندقہ کی لہر عام ہو رہی ہے اور قابلِ تکریم رشتوں اور ہستیوں کی توہین و بے قدری فیشن بنتا جا رہا ہے۔ تیونس میں خدائے ذوالجلال کی شان میں گستاخی اور گالیاں بکنے کی ایسی بری رسم ہے کہ دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔
مخلوط ہوسٹل
تیونس میں یونیورسٹیوں میں مخلوط ہوسٹل تعمیر کیے گئے ہیں جس سے اخلاقی اور جنسی بے راہروی میں اضافہ ہوا ہے۔ حالت یہ ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے طلبہ اور طالبات کو کنڈوم دیے جاتے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم کرنا
صہیونی مملکت کو تسلیم کرنے کے بعد اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے گئے ہیں۔ تیونس اب بدکاری اور جنسی بے راہ روی کا ملک بن چکا ہے۔ وزارتِ صحت کی طرف سے بندرگاہوں پر قائم دفتر غیر ملکی سیاحوں کو ایک کارڈ دیتا ہے جس کارڈ پر لکھا ہے ’’ہر مشتبہ جنسی عمل کے وقت کنڈوم استعمال کیجئے۔‘‘
اسلامی سلام دعا کے الفاظ کا خاتمہ
تیونس سے اسلام کے نشانات مٹانے کے لیے اب ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کے الفاظ بھی ممنوع قرار پا چکے ہیں کیونکہ سرکار کی نظر میں یہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کی علامت ہیں۔ یہ شدت پسندوں، بنیاد پرستوں اور اخوانجیوں (اخوان المسلمون والوں) کا سلام ہے۔ حکام نے ٹیلی ویژن، قومی اور مقامی ریڈیو پر ’’السلام علیکم‘‘ کے الفاظ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ عوام نے بھی الزام سے بچنے کے لیے ان الفاظ کو ترک کر دیا ہے۔
تعددِ ازواج پر پابندی
قانون نمبر ۱۸ کی رو سے ایک سے زائد شادی کرنے کو خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے۔ حکومتِ تیونس نے شہری اور سیاسی حقوق کے متعلق اقوامِ متحدہ کو جو رپورٹ بھیجی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی تعددِ ازواج کے جواز میں رکھی گئی حکمت کو لغو قرار دیا گیا ہے۔
تیونس میں آج اسلامی قوانین اور روایات کو مسخ کرنے اور مٹانے کے لیے آزادی کے بعد وہ کچھ کہا گیا ہے جو فرانس کے دورِ غلامی میں بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کی ایک جھلک سے یہ احساس بھی بیدار ہوتا ہے کہ ہمارے ملک پاکستان میں آزادی کے بعد اسلامی نظام کے لیے جو اجتماعی جدوجہد کی گئی اس کا یہ ثمرہ ہے کہ آج دینی قوتوں کو کام کرنے کا میدان ملا ہوا ہے۔ مواقع کا حق یہ ہے کہ انہیں زیادہ سے زیادہ حقیقی اسلامی بیداری کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ ملک کے عوام کی اکثریت اسلامی نظام کی برکتوں کی قائل ہو، اور ایسی قیادت کا انتخاب کرے جو ملک میں اسلامی نظام فی الواقع قائم کرے۔ اس سے دوسرے مسلمان ملکوں میں اسلامی نظام کی جدوجہد کرنے والوں کو تقویت حاصل ہو گی اور راہیں کھلیں گی۔
(روزنامہ جرأت لاہور راولپنڈی مظفر آباد ۔ صفحہ ۵ ۔ ۵ نومبر ۱۹۹۹ء)